جمعیۃ علماء ہند کے اجلاس مجلس منتظمہ میں ’یکساں سول کوڈ‘ سے متعلق کئی تجاویز منظور

جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ یونیفارم سول کوڈ آئین میں دئیے گئے بنیادی حقوق سے متصادم، ناقابل قبول اور ملک کی یکجہتی اور سالمیت کے لئے نقصاندہ ہے۔

<div class="paragraphs"><p>مولانا ارشد مدنی،&nbsp;تصویر یو این آئی</p></div>

مولانا ارشد مدنی،تصویر یو این آئی

user

پریس ریلیز

نئی دہلی: جمعیۃ علماء ہند یکساں سول کوڈ کی مخالف ہے، کیونکہ یہ آئین میں شہریوں کو دفعہ 25,26 میں دی گئی مذہبی آزادی اور بنیادی حقوق کے سراسر منافی ہے، ہندوستان کے دستور میں سیکولرزم کے معنی یہ ہیں کہ ملک کا اپنا کوئی مذہب نہیں ہے یہ تمام مذاہب کا یکساں احترام کرتا ہے مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیاز نہیں برتا جاتا ہے اور ملک کے ہر شہری کو مذہبی آزادی حاصل ہے ہندوستان جیسے تکثیری معاشرہ میں کہ جہاں صدیوں سے مختلف مذاہب کے ماننے والے اپنے اپنے مذہب کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے امن اور یکجہتی کے ساتھ رہتے آئے ہیں وہاں یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کی بات انتہائی حیرت انگیز ہے بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک خاص فرقہ کو ذہن میں رکھ کر اکثریت کو گمراہ کرنے کے لئے آئین کی دفعہ 44 جو کہ دستور ہند کے رہنما اصولوں کے باب IV میں درج ہے جس کا نفاذ لازمی نہیں (بلکہ ایک مشورہ ہے)، اس کی آڑ لی جارہی ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ بات تو آئین میں کہی گئی ہے، حالانکہ خود آر آر ایس کے دوسرے سرسنچالک گرو گول والکر نے کہا کہ‘‘یونیفارم سول کوڈ بھارت کے لئے غیر فطری اور اس کے تنوعات کے منافی ہے’’۔

حقیقت یہ ہے کہ یکساں سول کوڈ کی بات رہنما ہدایات کے ضمن میں کہی گئی ہے (مشورہ دیا گیا ہے) وہیں شہریوں کے بنیادی حقوق کی ضمانت آئین میں دی گئی ہے آئین کے باب 3 کے تحت درج بنیادی دفعات میں کسی بھی ادارہ کو خواہ وہ پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ تبدیلی کا اختیار نہیں ہے، آئین تو آزادی کے بعد تیار ہوا جبکہ تاریخ بتاتی ہے کہ صدیوں سے اس ملک میں لوگ اپنے اپنے مذہبی اصول پر عمل پیرا رہے ہیں لوگوں کے مذہبی عقائد اور رواج مختلف رہے ہیں مگر ان میں کبھی کوئی اختلاف یا کشیدگی پیدا نہیں ہوئی، درحقیقت ایک مخصوص ذہنیت کے لوگ یہ کہہ کر اکثریت کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یکساں سول کوڈ کی بات آئین کا حصہ ہے جبکہ ایسا بالکل نہیں ہے، ملک میں قانون وانتظام کی صورتحال کو بر قرار رکھنے کے لئے تعزیرات ہند کی دفعات موجود ہیں ان کے تحت ہی مختلف جرائم کے لئے سزائیں دی جاتی ہیں اور ان کے دائرہ میں ملک کے تمام شہری آتے ہیں، البتہ ملک کی اقلیتوں، قبائل اور بعض دوسری برادریوں کو مذہبی وسماجی قانون کے تحت آزادی دی گئی ہے کیونکہ مذہبی خاندانی وسماجی ضابطوں سے ہی مختلف مذہبی برادریوں اور گرپوں کی شناخت وابستہ ہیں اور یہی ملک کی یکجہتی، سا لمیت اور اتحا د کی بنیاد ہے، یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کا مطالبہ شہریوں کی مذہبی آزادی پر قدغن لگانے کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔


جمعیۃ علماء ہند روز اول سے اس سازش کی مخالفت کرتی آئی ہے جمعیۃ علماء ہند کی مجلس منتظمہ کا یہ اجلاس محسوس کرتا ہے کہ یکساں سول کوڈ پر اصرار شہریوں کی مذہبی آزادی اور آئین کی اصل روح کو ختم کرنے کی سازش کا حصہ ہے اور آئین میں دیئے گئے بنیادی حقوق سے متصادم، مسلمانوں کے لئے نا قابل قبول اورملک یکجہتی اور سالمیت کے لئے نقصاندہ ہے۔

تجویز پر اظہار خیال کرتے ہوئے صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ یہ معاملہ صرف مسلمانوں کا نہیں بلکہ تمام ہندوستانیوں کا ہے، جمعیۃ علماء ہند کسی بھی صورت میں اپنے مذہبی معاملات وعبادات کے طور طریقے سے سمجھوتہ نہیں کرسکتی۔ ہم سڑکوں پر احتجاج نہیں کریں گے لیکن قانون کے دائرے میں تمام ممکنہ اقدامات کریں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔