کراس ووٹنگ: حکومتی اتحاد کے سات اراکین کی مشکوک ووٹنگ سے بی جے پی امیدوار کی جیت

اطلاعات کے مطابق حکومتی اتحاد سے وابستہ سات ارکان اسمبلی نے یا تو جان بوجھ کر اپنے ووٹ منسوخ کر دیے یا بی جے پی امیدوار کے حق میں ووٹ دیا، جس سے پورے سیاسی منظرنامے میں ہلچل مچ گئی ہے۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر بشکریہ آئی اے این ایس</p></div>
i
user

یو این آئی

جموں و کشمیر کی تاریخ میں پہلی بار راجیہ سبھا انتخابات میں اس قدر غیر معمولی کراس ووٹنگ دیکھنے کو ملی، جس کے نتیجے میں بھارتیہ جنتا پارٹی  نے حیران کن طور پر چوتھی نشست اپنے نام کرلی۔ اطلاعات کے مطابق حکومتی اتحاد سے وابستہ سات ارکان اسمبلی نے یا تو جان بوجھ کر اپنے ووٹ منسوخ کر دیے یا بی جے پی امیدوار کے حق میں ووٹ دیا، جس سے پورے سیاسی منظرنامے میں ہلچل مچ گئی ہے۔

انتخابی نتائج کے مطابق بی جے پی امیدوار ست پال شرما نے 32 ووٹ حاصل کیے جو پارٹی کی اپنی عددی طاقت سے چار ووٹ زیادہ ہیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ کم از کم چار ارکان اسمبلی نے حکومتی اتحاد کے امیدواروں کے بجائے بی جے پی کے حق میں ووٹ ڈالا۔


ذرائع کے مطابق، نیشنل کانفرنس کے تیسرے امیدوار شمی اوبرائے کو 31 ووٹ ملے، یعنی ایک ووٹ زیادہ، جو دراصل نیشنل کانفرنس کے چوتھے امیدوار عمران نبی ڈار کے کھاتے میں جانا چاہیے تھا۔ تاہم عمران نبی ڈار، جنہیں 28 سے 29 ووٹوں کی یقین دہانی تھی، محض 21 ووٹ حاصل کر سکے۔
نیشنل کانفرنس ذرائع کے مطابق، پارٹی کے دو امیدواروں کو مجموعی طور پر 58 ارکان اسمبلی کی حمایت حاصل تھی، جن میں 41 نیشنل کانفرنس، 6 کانگریس، 7 آزاد امیدوار، 3 پی ڈی پی اور 1 سی پی آئی (ایم) کے ارکان شامل تھے۔ مگر حیران کن طور پر پارٹی کے امیدواروں کو صرف 51 ووٹ ملے۔
یہ صورتحال اس بات کی غماز ہے کہ بی جے پی کو کراس ووٹنگ، جان بوجھ کر ووٹ منسوخی، اور ایک اضافی ووٹ سے فائدہ پہنچا۔ اس سیاسی پیش رفت نے جموں و کشمیر میں سیاسی جوڑ توڑکے امکانات کو جنم دیا ہے، اور یہ آئندہ دنوں میں شدید سیاسی بحث کا مرکز بن سکتا ہے۔

ذرائع کے مطابق، راجیہ سبھا انتخابات کے دوران سیاسی جماعتوں کی طرف سے پولنگ ایجنٹوں کے کردار پر بھی سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ تمام بڑی جماعتوں نے اپنے مجاز پولنگ ایجنٹ مقرر کیے تھے، تاہم پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے کسی بھی نشست کے لیے کوئی پولنگ ایجنٹ نامزد نہیں کیا۔اسی طرح ایک دلچسپ واقعہ اس وقت پیش آیا جب کانگریس کے ایم ایل اے نظام الدین بٹ نے بغیر کسی متبادل پولنگ ایجنٹ کے اپنا ووٹ ڈالا۔


ذرائع کا کہنا ہے کہ نیشنل کانفرنس کی قیادت نے پی ڈی پی ارکان کو عمران نبی ڈار کے حق میں ووٹ دینے کی ہدایت دی تھی، جس پر پی ڈی پی نے اصولی طور پر رضامندی بھی ظاہر کی تھی۔ تاہم نتائج اس کے برعکس سامنے آئے۔

واضح رہے کہ آزاد امیدواروں کے برعکس، سیاسی جماعتوں سے وابستہ ارکان اسمبلی کو اپنا ووٹ بیلٹ باکس میں ڈالنے سے پہلے مجاز پولنگ ایجنٹ کو دکھانا ہوتا ہے، تاکہ ووٹ کی تصدیق کی جا سکے۔
انتخابی مبصرین کے مطابق، یہ واقعہ نہ صرف سیاسی اتحادوں کی اندرونی کمزوری کو عیاں کرتا ہے بلکہ جموں و کشمیر کی انتخابی سیاست میں اعتماد کے بحران کو بھی نمایاں کر گیا ہے۔ نیشنل کانفرنس کی قیادت نے واقعے کی تحقیقات کا عندیہ دیا ہے، جبکہ بی جے پی اس کامیابی کو جمہوریت کی جیت قرار دے رہی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ جموں و کشمیر کی سیاسی تاریخ کا سب سے متنازعہ راجیہ سبھا انتخاب بن چکا ہے، جس کے اثرات طویل عرصے تک خطے کی سیاست پر محسوس کیے جائیں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔