مودی حکومت اقتصادی آنکڑوں کی بازیگری پر اتری!

مودی حکومت کو اب نظر آنے لگا ہے کہ جی ایس ٹی اور نوٹ بندی پر ان کے دلائل بے اثر ہو رہے ہیں، لوگ روزگار کے حوالے سے جو سوال پوچھ رہے ہیں وہ سننے میں بھلے ہی عام لگیں لیکن معیشت کے لحاظ سے اہم ہیں۔

مودی حکومت  اقتصادی آنکڑوں کی بازیگری پر اتری!
user

تسلیم خان

بڑے بڑے اعلانات کرنا، گزشتہ حکومتوں کی کمیوں کو کرید کرید کر لوگوں کے سامنے رکھنا، ان سے ہوئے نقصانات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا، بغیر سوچے سمجھے ایسے فیصلے لینا جنہیں جائز ٹھہرانے کے لئے پوری سرکاری مشینری کے پسینے چھوٹ جائیں اور پہلے سے چل رہے منصوبوں کو نئے نام کے ساتھ پیش کرنا وغیرہ۔یہ مرکز کی مودی حکومت کا طریقہ کار ہے۔ اس کے علاوہ بھی مودی حکومت کا ایک اور مشغلہ ہے اور وہ یہ کہ لوگوں میں قومیت کا جنون بھر نا، مذہبی انتہاپسندی کو پیدا کرنا اور حقیقی، سیاسی اور سماجی مدوں سے لوگوں کا دھیان ہٹانا۔

لیکن جب امیر سے لے کر غریب تک اور رکشہ چلانے والے سے لے کر رہڑی لگانے والے تک حکومت کے خلاف ہو جائیں اور حکومت کے باہر سےہی نہیں بلکہ اندر سے بھی حکومت مخالف آوازیں سنائی دینے لگیں تو مغرور حکومت کی نیند اڑ نے ہی لگتی ہے۔ اب ایسے حالات پیدا ہو گئے ہیں اور حکومت کو سمجھ میں یہ آنے لگا ہے کہ اب ان کی یہ حکمت عملی عوام برداشت نہیں کرنے والی ہے۔

ان سب کو پیش نظر رکھتے ہوئے منگل کےروز حکومت کی طرف سے یہ پیغام دیا گیا کہ ملک کی اقتصادی صحت ایک دم درست ہے ، بینکوں کو اُبارنے کے لئے سوا لاکھ کروڑ کی مدد دی جا رہی ہے، لاکھوں کروڑ کی سڑکیں بن رہی ہیں اور جی ایس ٹی کا ٹرانزیشن فیز (تبدیلی کا وقت )چل رہا ہے اور ’گبر سنگھ ٹیکس ‘ کہنے والوں کو اس کی سمجھ نہیں۔

در اصل یہ خلاصہ ہے اس پریس کانفرنس کا جو وزیر خزانہ نے جلد بازی میں بلائی تھی۔ پریس کانفرنس کے دوران ارون جیٹلی کی لڑکھڑاہٹ اور اٹپٹاہٹ صاف جھلک رہی تھی۔ لیکن یہ پریس کانفرنس کیوں بلائی گئی اس کا کسی کو پتہ نہیں چل سکا۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ وزیر خزانہ کو بھی اس بات کا علم نہ ہو کہ اس پریس کانفرنس کی ضرورت کیوں تھی!

پریس کانفرنس آخر کیوں بلائی گئی

اس کی وجہ صاف نہیں ہو پائی لیکن اتنا طے ہے کہ الیکشن کمیشن بدھ یعنی کہ آج 25 اکتوبر کو گجرات اسمبلی انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کر سکتا ہے ۔ شاید اسی کے پیش نظر پریس کانفرنس طلب کر کے کچھ اعلانات کئے گئے ہیں۔

در اصل گزشتہ دنوں سے معیشت کے میدان میں حکومت کی حالات خراب ہے۔ پہلے تو حکومت کو کوئی جواب ہی نہیں بن پڑتا اور جب کوئی وہ جواب دے دیتی ہے تو اس سے نئے نئےسوال کھڑے ہو جاتے ہیں۔

راہل گاندھی اور دوسری اپوزیشن جماعتیں مسلسل سوال اٹھا کر حکومت کی ناک میں دم کئے ہوئے ہیں ۔ 8 نومبر کو نوٹ بندی کا ایک سال مکمل ہونے جا رہا ہے اور اس دن کو اپوزیشن نے یوم سیاہ کے طور پر منانے کا فیصلہ کر لیاہے۔

جیٹلی نے کتنی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ؟

تقریباً 100 منٹ تک چلی پاور پوائنٹ پریزنٹیشن والی اس پریس کانفرنس میں مودی کابینہ کے کچھ فیصلے منظر عام پر لائے گئے۔ ان فیصلوں میں سڑک تعمیر کے منصوبوں پر 7 لاکھ کروڑ کا خرچ اور سرکاری بینکوں کو نئے سرے سے سرمایہ مہیا کرانے یعنی ری کپٹیلازیشن کے لئے 2.11 لاکھ کروڑ روپے کی امداد۔ ویسے غور سے دیکھیں تو سرکاری بینکوں کی یہ امداد سابقہ اعلانات کی ’ری پیکیجنگ ‘ہی نظر آتی ہے۔

جیٹلی کے بیان میں شامل موضوعات

سرکاری اعلامیہ کی طرز پر کی گئی پریس کانفرنس کے دوران وزیر خزانہ اعداد و شمار کی بازی گری دکھاتے ہوئے ہی نظر آئے۔ سڑک سے لے کر ریلوے تک اور بندرگاہوں سے لے کر گاؤں کی سڑک منصوبوں تک۔ ہر اعداد و شمار کی وضاحت پیش کی گئی۔ اتنا ہی نہیں پہلے سے چل رہے ’سوبھاگیہ‘ اور ’اوجولا‘ جیسے منصوبوں کی خوبیاں بھی گنوائی گئیں۔

عام طور پر انگریزی میں بات کرنے والے وزیر خزانہ ہندی میں بات کرتے اور سوالوں کے جواب دیتے نظر آئے۔ جیٹلی نے بتایا کہ سڑک تعمیراتی منصوبوں کے تحت اگلے 5 سالوں میں 84 ہزار کلومیٹر سڑکیں اور ہائی وے بنوائے جائیں گے جن میں ’ بھارت مالا‘ منصوبے پر 5.35 لاکھ کروڑ کا خرچ ہوگا۔

یہاں بھی چناوی جملوں کا استعمال کیا گیا اور بتایا گیا کہ ’ بھارت مالا‘ پروجیکٹ سے 14.2 کروڑ دنوں کا روزگار پیدا ہوگا۔

بینکوں کی مدد

اس معاملہ پر حکومت نے اپنے اسی فارمولے کو اپنایا جس کے مودی ماہر ہیں یعنی پرانے منصوبوں کی ری پیکیجنگ، ری نیمنگ اور ری برینڈنگ ۔ اعلان کیا گیا کہ سرکاری بینکوں کو 2.11 لاکھ کروڑ کی امداد دی جائے گی۔ لیکن ان میں سے 1.35 لاکھ کروڑ روپے بینک خود بانڈ کے ذریعہ اکٹھا کریں گے اور بقیہ 76000 کروڑ روپے بازار اور بجٹ سے دئیے جائیں گے۔ غور سے دیکھا جائے تو یہ تکنیکی طور پر مدد ہے اور نہ ہی حقیقی طور پر بینکوں کو پیسہ دیا جا رہا ہے۔ جیٹلی نے خود بھی کہا کہ بانڈ کی باریکیوں پر ابھی غور چل رہا ہے جس کی تفصیلات بعد میں فراہم کی جائیں گی۔

ووٹروں کو لبھانے کی کوشش

پریس کانفرنس کے آخر میں جب جیٹلی اپنی بات ختم کر رہے تھے تو اچانک انہیں خیال آیا کہ اعداد و شمار کے جال اور اقتصادی الفاظ سے وہ اس طبقہ کو متاثر نہیں کر پائیں گے جس سے ووٹ وصولے جاتے ہیں ۔ تب وزیر خزانہ نے کہا بینکوں کو سرمایہ ملنے کے بعد بینکوں سے کہا جائے گا کہ وہ چھوٹے اور درمیانے کاروباریوں کے لئے قرض فراہم کریں۔

غور طلب ہے کہ یہ وہی طبقہ ہے جو نوٹ بندی اور جی ایس ٹی سے سب سے زیادہ پریشان ہے۔ چناوی نظریہ سے یہی طبقہ سب سے زیادہ اہم بھی ہے ۔ اس لئے پوری پریس کانفرنس سے یہ اشارہ دینے کی کوشش کی گئی کہ حکومت کے اقدام سے روزگار پیدا ہوں گے ، بازار میں سامان کی مانگ بڑھے گی، کاروبار کرنے کے لئے ماحول سازگار ہوگا اور عام آدمی کی زندگی آسان ہوگی۔

خوفزدہ حکومت کی گھبراہٹ

دراصل مودی حکومت اپنے غرور اور بڑبولے پن سے اس غلط فہمی میں ہےکہ تقریباً 43 مہینے حکومت چلانے کے بعد بھی وہ گزشتہ حکومتوں کی ناکامیوں کو گنوا کر لوگوں کو گمراہ کر سکتے ہیں۔ حکومت کو یہ بھی غلط فہمی ہے کہ گئورکشا، فرقہ پرستی، قومیت وغیرہ کے نام پر کھیلے جانے والے جذباتی کارڈ بھی ہمیشہ چلتے رہیں گے۔

اسی غلط فہمی اور غرور میں وہ بھول گئی کہ جب غریب کے پیٹ میں روٹی نہ ہو، نوجوان کے پاس روزگار نہ ہو، متوسط طبقہ کے پاس خرچ کرنے کو پیسے نہ ہوں، چھوٹے اور درمیانے کاروباریوں کے کام کاج ٹھپ ہو گئے ہوں تو مضبوط سے مضبوط حکومت کا غرور بھی خاک میں مل جاتا ہے۔ مودی حکومت اس بات کو بھول گئی ہے کہ اعداد و شمار کی بازی گری کو خالی جیب والے اور لگی لگائی نوکری سے ہاتھ دھونے والے لوگ منسوخ کر دیتے ہیں۔

وزیر خزانہ کی پریس کانفرنس میں حکومت کی گھبراہٹ اور تشویش صاف نظر آئی۔ شاید اسی لئے وزیر خزانہ اور ان کے محکمہ کے سیکریٹری یہ بتاتے ہوئے نظر آئے کہ اقتصادی میدان پر سب کچھ صحیح ہے۔ لیکن لوگوں کو یقین تو تب ہوگا جب یہ پاتیں پاور پوائنٹ پریزینٹیشن کی سلائڈوں سے نکل کرحقیقت کی شکل اختیار کریں گی۔

اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمالکریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔