سینئر صحافیوں کی مانیں تو 160 نشستوں پر سمٹ جائے گی بی جے پی، مودی کا پی ایم بننا ناممکن

سیاسی نبض پر ہاتھ رکھنے والے کئی سینئر صحافی زمینی حالات اور اعداد و شمار کے تجزیہ کی بنیاد پر مانتے ہیں کہ بی جے پی 2014 والی حالت میں نہیں اور وہ 150 سے 160 سیٹوں تک سمٹ سکتی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

سینئر صحافی اروند موہن کا کہنا ہے کہ 2014 میں بی جے پی اپنے عروج پر تھی۔ اتر پردیش، راجستھان، مہاراشٹر، مدھیہ پردیش، گجرات، ہریانہ، چھتیس گڑھ، بہار، کرناٹک، اتراکھنڈ، ہماچل پردیش جیسی کئی ریاستوں میں بی جے پی نے یا تو ساری سیٹیں جیتیں یا کچھ ہی سیٹیں اس کے ہاتھ سے نکلیں۔ اس بار پہلے جیسی حالت نہیں ہے۔ بی جے پی کو مدھیہ پردیش، راجستھان، گجرات، دہلی، کرناٹک، بہار، جھارکھنڈ، چھتیس گڑھ، ہریانہ میں سیٹیں کم ہونی ہی ہیں۔

اروند موہن کہتے ہیں کہ اتر پردیش میں اس بار سماجوادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی، راشٹریہ لوک دل مل کر لڑ رہے ہیں، اس کا بھی بی جے پی کو بڑا نقصان ہو سکتا ہے۔ بی جے پی اتر پردیش میں اس بار کم از کم 30 سیٹیں کم لا رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ بی جے پی اس کمی کو بنگال اور اڈیشہ سے پورا کر سکتی ہے۔ لیکن اروند موہن کا ماننا ہے کہ ممتا بنرجی اور بیجو پٹنایک دونوں ہی اپنی اپنی ریاستوں میں مضبوط ہیں۔ وہاں سے بی جے پی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ مہاراشٹر میں اس بار این سی پی اور کانگریس مضبوطی کے ساتھ الیکشن لڑ رہی ہیں۔ شیو سینا کی سیٹیں بھی بڑھنے نہیں جا رہی ہیں۔ دوسری طرف پنجاب میں اکالیوں کی سیٹیں بھی بڑھنے کے امکانات نہیں ہیں۔ موہن یہ بھی کہتے ہیں کہ بی جے پی حکمراں ریاستوں میں ووٹرس کافی مایوس ہیں، وہ بی جے پی کے ساتھ کھڑے نظر نہیں آ رہے۔


اروند موہن یہ بھی کہتے ہیں کہ وزیر اعظم نریندر مودی یہ بھی جانتے ہیں کہ حکومت بنانے کے لیے علاقائی پارٹیوں سے ہی دوستی کرنی ہے۔ اس لیے وہ بیچ بیچ میں اڈیشہ کے وزیر اعلیٰ پٹنایک کے حق میں بیان بازی بھی کرتے ہیں۔ حال ہی میں فانی طوفان آنے کے بعد وہ اڈیشہ گئے اور وزیر اعلیٰ پٹنایک سے مل کر انھیں طوفان سے نمٹنے کے لیے کیے گئے کاموں پر مبارکباد دی۔

سینئر صحافی آشوتوش کا واضح طور پر ماننا ہے کہ اس بار لوک سبھا سہ رخی ہوگی۔ بی جے پی کو تقریباً 160 اور کانگریس کو 150 سیٹیں مل سکتی ہیں۔ آشوتوش یہ بھی بتاتے ہیں کہ بی جے پی گزشتہ بار کے مقابلے میں مہاراشٹر سے 15-10 سیٹیں، چھتیس گڑھ سے 8 سیٹیں، مدھیہ پردیش سے 8-7 سیٹیں، راجستھان سے 5 سیٹیں، گجرات سے 4-3 سیٹیں، دہلی سے 3 سیٹیں کم لا رہی ہے۔ بہار سے پانچ سیٹیں وہ پہلے ہی گنوا چکی ہے، اس کے علاوہ دو تین سیٹوں کا اسے مزید نقصان ہوگا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ یو پی سے بی جے پی کو کم از کم 30 سے 40 سیٹوں کا نقصان ہو رہا ہے۔


آشوتوش کہتے ہیں کہ بنگال اور اڈیشہ میں مسلم ووٹرس کم ہیں، اس لیے وہاں فرقہ وارانہ پولرائزیشن کے امکانات بھی نہیں ہیں۔ یہی سبب ہے کہ بی جے پی کو ان دونوں ریاستوں سے کوئی فائدہ نہیں ہونے جا رہا ہے۔ دیگر ریاستوں میں کیرالہ، آندھرا پردیش، تمل ناڈو سے بھی بی جے پی کو فائدہ نہیں ہوگا۔ اسی بنیاد پر وہ یہ امکان ظاہر کرتے ہیں کہ اس بار لوک سبھا سہ رخی ہو سکتی ہے۔

سینئر صحافی ارملیش اعداد و شمار کے چکّر میں نہیں پڑتے۔ وہ یہ نہیں بتاتے کہ کسے کتنی سیٹیں ملیں گی یا مل سکتی ہیں۔ لیکن بیدار اور سینئر صحافی ہونے کے ناطے وہ یہ ضرور کہتے ہیں کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بی جے پی کی 2014 والی حالت کسی بھی طرح سے دیکھنے کو نہیں مل رہی ہے۔ اس وقت مرکز میں دس سال پرانی حکومت تھی اور لوگوں میں اس کے تئیں ناراضگی تھی۔ لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ اب جو بھی مخالفت ہے، وہ بی جے پی کے ہی خلاف ہے۔


ارملیش یہ بھی کہتے ہیں کہ 2014 بی جے پی کے لیے سنہری دور تھا۔ کئی ریاستوں میں اس نے ساری سیٹیں جیتی تھیں اور یہ سیٹیں اب اسے ملنے نہیں جا رہیں۔ بی جے پی کی سیٹیں کم ضرور ہوں گی، لیکن کتنی کم ہوں گی اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ ویسے، وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ بی جے پی نے اس بار اتحاد کافی اچھا کیا ہے۔ اس نے بہار میں جنتا دل یو کے لیے اپنی سیٹیں چھوڑی ہیں اور شیو سینا کو بھی ساری مخالفتوں کے باوجود بی جے پی نے الگ نہیں ہونے دیا۔ یہ بی جے پی کی اسٹرٹیجک کامیابی ہے۔ لیکن یہ کامیابی کتنی سیٹیں بی جے پی کو دلا پائیں گی، اس بارے میں کہنا ابھی جلد بازی ہوگی۔ ارملیش یہ تو نہیں بتاتے کہ بی جے پی کو کتنی سیٹیں ملیں گی، لیکن یہ ضرور کہتے ہیں کہ بی جے پی نیچے آئے گی۔

سینئر ٹی وی جرنلسٹ پونیہ پرسون واجپئی کہتے ہیں کہ اس بار کے الیکشن نتائج حیران کرنے والے ہو سکتے ہیں۔ وہ تمام اشاروں کو پڑھتے ہوئے بتاتے ہیں کہ بی جے پی کا گراف کافی نیچے آنے والا ہے۔ وہ ملک کی سیاسی تاریخ کے ضمن میں اور بدل رہے سیاسی منظرنامے پر بات کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ بی جے پی کے لیے اس بار حکومت بنانا آسان نہیں ہوگا۔


سی ایس ڈی ایس کے ڈائریکٹر پروفیسر سنجے کمار کا بھی ماننا ہے کہ تمام سیاسی اشارے بتا رہے ہیں کہ بی جے پی کا گراف نیچے آئے گا، لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ کتنا نیچے آئے گا۔ پروفیسر سنجے کہتے ہیں کہ جب ووٹنگ کا فیصد کم ہوتا ہے تو اس سے برسراقتدار طبقہ کو فائدہ ہوتا ہے۔ لیکن اس بار حالات برعکس ہیں۔ ووٹنگ کا فیصد یا تو کم ہوا ہے یا برابر رہا یا پھر ایک ڈیڑھ فیصد زیادہ ہوا ہے۔ یہ حالت بی جے پی کے لیے خطرے کا اشارہ ہے۔

لیکن اعداد و شمار کے چکّر میں پروفیسر سنجے کمار بھی نہیں پھنسنا چاہتے۔ وہ اس پر بھی کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے کہ اس بار لوک سبھا انتخاب کے نتائج سہ رخی ہوں گے۔ بس اتنا کہتے ہیں کہ واضح طور پر یہ دکھائی پڑ رہا ہے کہ بی جے پی 2014 والی حالت میں نہیں ہوگی۔

(سدھانشو گپتا کی رپورٹ)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔