غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام سہ روزہ بین الاقوامی غالب سمینار ختم

غالب کے سلسلے میں عام طورپر یہ تصور کیا جاتاہے کہ اب نئے گوشے کا امکان ختم ہوگیاہے لیکن غور کیا جائے تو نئے گوشے برآمد ہوتے ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>فائل تصویر آئی اے این ایس</p></div>

فائل تصویر آئی اے این ایس

user

یو این آئی

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام سہ روزہ بین الاقوامی غالب تقریبات کا اتوار کو اختتام ہوگیا۔ ان تقریبات کے تحت ہونے والے بین الاقوامی سمینار بعنوان ’غالب: راز حیات اور اضطراب آگہی‘ میں ملک و بیرون ملک کے دانشوروں نے شرکت فرماکر مقالات پیش کیے۔

تیسرے دن کے پہلے اجلاس کی صدارت پروفیسر انیس اشفاق نے کی۔ انہوں نے کہاکہ بڑے شاعر کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ جس زمانے کی بصیرتوں کو اس میں تلاش کیا جائے اس میں مل جاتی ہیں۔ ژاک دریدہ نے جو جدید تصور لسان پیش کیاوہ سب غالب کے یہاں پہلے سے موجود ہیں۔ اس اجلاس میں پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین نے ’کلام غالب کے نقش ہائے رنگارنگ‘ ، ڈاکٹر ریحان حسن نے ’غالب کی نظرمیں راز حیات و ممات‘ اور ڈاکٹر سید ثاقب فریدی نے ’غالب کی غزل میں زندگی کی بے ثباتی‘ کے موضوع پر مقالات پیش کےے۔ اس اجلاس کی نظامت ڈاکٹر نوشاد منظر نے کی۔


دوسرے اجلاس کی صدارت پروفیسر قاضی جمال حسین نے کی۔صدارتی خطاب میں انہوں نے کہاکہ غالب کے یہاں بے خودی آگہی کے مترادف ہے۔ آشوب آگہی کا ترکیب ان کے علاوہ شاید ہی کسی شاعر نے استعمال کی ہو۔ وجود کی حقیقت کوئی مفکر یا سائنس داں دریافت نہیں کرسکا صرف شاعرہی کسی حد تک اس کی حقیقت کو واضح کرسکتاہے۔ اس اجلاس میں پروفیسر عتیق اللہ نے ’غالب خاطر آگاہ اور حیطہ ادراک‘، پروفیسر انیس اشفاق نے ’غالب کا طلسم خانہ آزار‘، اور ڈاکٹر خالد علوی نے ’غالب کا انداز فکر‘ کے موضوع پر مقالات پیش کیے۔ اس اجلاس کی صدارت محترمہ سیمیں فلک نے کی۔

تیسرے او رآخری اجلاس کی صدارت پروفیسرپروفیسر انورپاشانے فرمائی۔صدارتی تقریر کے دوران انہوں نے کہاکہ اضطراب اور آگہی ایک دوسرے کو مکمل کرتے ہیں۔ آگہی کے بطن سے ہی اضطراب جنم لیتاہے ورنہ بے خبری تو آسائش کا سبب ہوا کرتی ہے۔ اس اجلاس میں پروفیسر قاضی جمال حسین نے ’غالب کا تصور حیات‘ اور پروفیسر فاروق بخشی نے’غالب اور ترقی پسند تنقید‘ اور پروفیسر سید حسن عباس نے ’غالب کی خودشناسی‘کے موضوع پر مقالات پیش کےے۔ اس اجلاس کی نظامت کا فریضہ ڈاکٹر شعیب رضاخان وارثی سے وابستہ رہا۔ اختتامی اجلاس کی صدارت پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے فرمائی۔ اپنے صدارتی خطاب میں انہوں نے کہاکہ غالب انسٹی ٹیوٹ ہرسال بین الاقوامی سمینار کاانعقاد کرتاہے۔ ہماری کوشش رہتی ہے کہ مقالات کی روشنی میں کارآمد باتیں سامنے آئیں اور تکرار سے محفوظ رہا جاسکے۔


پروفیسر سید خالد قادری نے اظہار رائے کرتے ہوئے کہا کہ سمینارکاموضوع بہت اہم تھااور اس پر جدید تھیوریز کی روشنی میں اس موضوع کو دیکھنا چاہےے اور یہ کام ہماری نوجوان نسل بہتر طورپر انجام دے سکتی ہے۔ پروفیسر عتیق اللہ نے کہاکہ غالب کے سلسلے میں عام طورپر یہ تصور کیا جاتاہے کہ اب نئے گوشے کا امکان ختم ہوگیاہے لیکن غور کیا جائے تو نئے گوشے برآمد ہوتے ہیں۔ پروفیسر انیس اشفاق نے کہاکہ غالب انسٹی ٹیوٹ ایک مدرسہ تعبیرِ غالب اور تفہیمِ غالب کا درجہ حاصل کرچکاہے۔ بہت سی کتابیں تو یہاں ہونے والے مذاکروں کی رائیدہ ہیں۔ڈائرکٹر ڈاکٹر ادریس احمد نے مہمانوں اور سامعین کا شکریہ ادا کیا۔سمینار کے بعد غالب انسٹی ٹیوٹ کی ذیلی شاخ ’ہم سب ڈرامہ گروپ‘ کی جانب سے اردو ڈرامہ ’چوتھی کا چوڑا‘ پیش کیاگیا جسے عصمت چغتائی نے افسانے کی شکل میں لکھا ہے اور جناب سرفراز احمدنے اسے ڈرامے کی شکل دی ہے۔ عباس حیدرکی زیرہدایت کاری یہ ڈرامہ اسٹیج ہوا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔