اورنگ زیب کے مقبرے پر سخت سیکورٹی، ہندو تنظیموں کا احتجاج جاری

وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل نے اورنگ زیب کے مقبرے کو مسمار کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاج شروع کر دیا۔ سیکورٹی سخت کر دی گئی، جبکہ معاملہ مہاراشٹر اور قومی سیاست میں تنازع کی صورت اختیار کر گیا

<div class="paragraphs"><p>تصویر سوشل میڈیا</p></div>

تصویر سوشل میڈیا

user

قومی آواز بیورو

مہاراشٹر کے خلد آباد میں واقع مغل شہنشاہ اورنگ زیب کے مقبرے کو لے کر تنازع شدت اختیار کر گیا ہے، جہاں وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل سمیت دائیں بازو کی ہندو تنظیموں نے اس کے انہدام کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاج شروع کر دیا ہے۔ ان تنظیموں نے بابری مسجد کی طرز پر تحریک شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے، جس کے بعد ریاستی حکومت نے سخت حفاظتی اقدامات کیے ہیں۔

شیواجی مہاراج کی یوم پیدائش کی تقریبات کے دوران ان تنظیموں نے مقبرے کے خلاف مظاہرے کیے، جس کے نتیجے میں مقامی انتظامیہ نے فوری کارروائی کرتے ہوئے مقبرے کی سیکورٹی سخت کر دی اور عوام کے داخلے پر پابندی عائد کر دی۔ مقامی پولیس اور نیم فوجی دستے تعینات کر دیے گئے ہیں تاکہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے کو روکا جا سکے۔

یہ معاملہ ریاستی اسمبلی کے جاری بجٹ اجلاس میں بھی زیر بحث آیا، جہاں اپوزیشن اور حکومتی نمائندوں کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا۔ اس تنازع نے ریاستی سیاست میں کشیدگی پیدا کر دی ہے اور مستقبل میں یہ مسئلہ مزید سنگین رخ اختیار کر سکتا ہے۔

چھٹے مغل بادشاہ اورنگ زیب (3 نومبر 1618 – 3 مارچ 1707) کا مقبرہ خلد آباد میں ایک سادہ اور بے نشان قبر کے طور پر موجود ہے، جو آثار قدیمہ کے محکمے کے تحت آتا ہے۔ ہندو جن جاگرتی سمیتی نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مقبرے کی دیکھ بھال کے لیے دی جانے والی مالی امداد بند کرے اور اس کو ختم کیا جائے۔


ریاست کے نائب وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ دیویندر فڑنویس نے اس معاملے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اورنگ زیب کی قبر آثار قدیمہ کے ادارے کے تحت ہے اور ریاستی حکومت کا فرض ہے کہ وہ اس کی حفاظت کرے۔ تاہم، انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’اورنگ زیب کی توقیر کو کسی بھی قیمت پر برداشت نہیں کیا جائے گا۔‘

اس معاملے پر سیاسی جماعتوں کے درمیان اختلافات شدت اختیار کر گئے ہیں۔ جہاں ہندو تنظیمیں مقبرے کے انہدام کا مطالبہ کر رہی ہیں، وہیں کچھ سیاسی رہنما اسے تاریخی ورثہ قرار دیتے ہوئے اس کی حفاظت پر زور دے رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق، اگر اس معاملے کو جلد حل نہ کیا گیا تو یہ مہاراشٹر سمیت ملک بھر میں ایک بڑے تنازعے کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔

گزشتہ برس بھی کچھ دائیں بازو کے کارکنوں نے مقبرے کے خلاف مظاہرہ کیا تھا، جس کے بعد اسے کچھ عرصے کے لیے عوام کے لیے بند کر دیا گیا تھا لیکن اس بار تحریک مزید منظم نظر آ رہی ہے، جس کے باعث انتظامیہ کو سخت اقدامات کرنے پڑے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔