ہندوستانی میڈیا کے خلاف ’کوبرا پوسٹ‘ کا سنسنی خیز اسٹنگ آپریشن

اسٹنگ آپریشن میں جہاں کئی بڑے میڈیا گھرانے داغدار نظر آئے ہیں وہیں مغربی بنگال اور تریپورہ میں کچھ ایسے اخبار کا بھی پتہ چلا ہے جنھوں نے کسی بھی قیمت پر غلط مہم چلانے سے انکار کر دیا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

انوسٹی گیٹیو نیوز پورٹل ’کوبرا پوسٹ‘ نے جمعہ کو 30 ویڈیوز جاری کیے جس میں دکھایا گیا ہے کہ کئی بڑے میڈیا گھرانے ملک میں فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے، تفریقی ایجنڈے کو نافذ کرنے اور غیر بی جے پی سیاسی رہنماؤں کی کردار کشی کرنے کے لیے بڑے فائدے لینے کے لیے تیار ہیں۔ اسٹنگ آپریشن کا دوسرا حصہ اس وقت پوسٹ کیا گیا جب ہائی کورٹ سے ’دینک بھاسکر‘ نے اس کو روکنے کا اسٹے لے لیا تھا۔ ان ویڈیوز کو دکھانے پر اسٹے لے لیا تھا۔ کوبرا پوسٹ یو ٹیوب چینل نے ’دینک بھاسکر‘ والے حصے کو چھوڑ کر باقی یو ٹیوب چینل پر پوسٹ کر دیا۔

پورٹل نے جو ویڈیوز جاری کیے ہیں اس میں سنسنی خیز انکشافات نظر آتے ہیں، جس میں کئی بڑے میڈیا گھرانے بشمول ٹائمس آف انڈیا، بینیٹ کولومین اینڈ کمپنی، ہندوستان ٹائمس، دی نیو انڈین ایکسپریس، اے بی پی نیوز، زی گروپ، ٹی وی 18، اے بی این آندھرا جیوتی، دیناملار، جاگرن گروپ، اوپین میگزین، لوک مت، سن گروپ اور بِگ ایف ایم شامل ہیں۔

’قومی آواز‘ اس بات کی تصدیق نہیں کرتا کہ یہ ویڈیوز جو کوبرا پوسٹ نے اَپ لوڈ کیے ہیں وہ صحیح ہیں یا نہیں۔ ان ویڈیوز میں انڈر کور رپورٹر پشپ شرما نے خود کو آچاریہ اٹل نامی ایک پرچارک کے طور پر خود کو متعارف کرایا ہے۔ اس کی ملاقات کئی سینئر ایگزیکٹیو بشمول ٹائمس آف انڈیا کے منیجنگ ڈائریکٹر سے ہوئی۔ پرچارک نے ان ویڈیوز میں دعویٰ کیا ہے کہ وہ ایک تنظیم ’شریمد بھگوت گیتا پرچار سمیتی‘ کی نمائندگی کر رہا ہے اور وہ ان ویڈیوز میں فرقہ وارانہ ایجنڈا اور تفریق کو فروغ کرنے کے لیے اشتہارات، ایوینٹس، ایڈورٹوریلس کو سینکڑوں کروڑ روپے اسپانسر کر رہا ہے۔

واضح رہے کہ اس سے پہلے 26 مارچ 2018 کو ’کوبرا پوسٹ‘ اپنا پہلا اسٹنگ آپریشن لے کر آیا تھا اور اب یہ’آپریشن 136‘ کا دوسرا اسٹنگ ہے۔ اس میں کئی میڈیا گھرانوں کا پردہ فاش کیا گیا ہے۔ کوبرا پوسٹ کے ’آپریشن 136‘کی دوسری قسط میں جہاں کئی ایسے میڈیا گھرانوں کا پردہ فاش کیا گیا جو سال 2019 کے عام انتخابات سے پہلے نقد پیسے لے کر ہندوتوا نظریہ کے لئے سیاسی مہم چلانے کے لئے تیار تھے ، وہیں مغربی بنگال کے ’ برتمان‘ اور تریپورہ کے ’سمباد‘ اخبار نے ایسی مہم چلانے کے لئے ہر طرح کی پیش کش کو مسترد کر دیا تھا۔

کوبرا پوسٹ اسٹنگ کے مطابق ٹائمس آف انڈیا کے منیجنگ ڈائریکٹر ونیت جین نے ایسا مواد شائع کرنے کے لئے 1000کروڑ روپے مانگے تھے۔ یہ تمام میڈیا گھرا نے اپنے تمام پلیٹ فارم پر یہ مواد شائع کرنے کے لئے رضامند تھے۔ انڈیا ٹوڈے گروپ کے وائس چئیر پرسن کالی پوری نے ایک بار رپورٹرکو ایسا کرنے سے منع کرتے ہوئے کہا کہ ’ایسا کچھ بھی کرنا ادارت کے ساتھ صحیح نہیں رہے گا۔ ‘ ہندوستان ٹائمس میڈیا گروپ کےا یسو سی ایٹ وائس پریسیڈنٹ اونیش بنسل کو اس اسٹنگ آپریشن میں مشورہ دیتے ہوئے سنا جا رہا ہے ’’تم دو طرح سے حملہ کرو۔ ایک میڈیا گھرانوں سے معاملات کرو۔ اگر تم ان کو کچھ کروڑ روپے دے کر اپنے بارے میں مثبت بلوا سکتے ہو، اگر تم ان کو کروڑ روپے دے کر اپنے بارے میں مثبت بلواؤگے تو میری ادارتی ٹیم پر یہ دباؤ ہوگا کہ زیادہ منفی نہ دکھایا جائے۔ دوسرا یہ کہ اگر تم کسی مشہور پبلک رلیشن ایجنسی کو اپنے ساتھ جوڑ لیتے ہو تو وہ رپورٹرس کو کنٹرول کر سکتے ہیں کیونکہ وہ ان کی خبروں کے ذرائع ہوتے ہیں۔‘‘

دوسری میٹنگ میں ہندوستان ٹائمس میڈیا گروپ کے ایک اور عہدیدار کو یہ وعدہ کرتے ہوئے سنا گیا ہے کہ ’’انتخابات سے قبل کانگریس کے اقتدار وارلی کرناٹک میں معاشی بحران اور کسانوں کی خودکشی کے معاملے کو زیادہ چلایا جا سکتا ہے۔‘‘

ان میڈیا گھرانوں کے ساتھ ڈجیٹل آن لائن پیمنٹ کا پلیٹ فارم پے ٹی ایم بھی ایسے اشتہار چلانے کے لئے تیار تھا۔

کوبرا پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق مغربی بنگال کے برتمان پتریکا اخبار اور تریپورہ کے دینک سمباد اخبار نے ایسی کسی بھی پیش کش کو منع کر دیا لیکن باقی تمام میڈیا گھرانے ایسی مہم چلانے کے لئے تیار تھے کیونکہ قیمت صحیح مل رہی تھی۔

صحافی نے ان میڈیا گھرانوں کو مشورہ دیا تھا کہ ان کا سنگٹھن ہندوتوا ایجنڈا کے فروغ کےلئے ان کو رقم دے گا ۔ اس کے فروغ کے لئے پہلے فیز میں خوشگوار ماحول بنانے کے لئے مذہبی پروگرام چلانے ہوں گے اور اس کے بدلے ان کو رقم دی جائے گی۔ پولرائزیشن کے اس مواد کے ساتھ ساتھ ان گھرانوں کو حزب اختلاف کے رہنما راہل گاندھی، مایاوتی اور اکھلیش یادو کی کردار کشی کی مہم بھی چلانی ہو گی ۔

دوسرے فیز میں رائے دہندگان کو فرقہ پرستی کی بنیاد پر ہموار کرنے کے لئے سخت گیر ہندوتوا رہنماؤں جیسے ونے کٹیار، اوما بھارتی اور موہن بھاگوت کی تقاریر کو فروغ دینا ہو گا ۔ کوبرا پوسٹ کی تحقیق اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ آر ایس ایس جیسی تنظیموں نے صرف میڈیا گھرانوں کے نیوز روم میں ہی نہیں بلکہ ان کے بور ڈرومس میں بھی گھس پیٹھ کر لی ہے ، جہاں مالکان اس بات کا اعتراف کرتے نظر آرہے ہیں کہ ان کے بر سر اقتدار پارٹی اور اس کی پیرنٹ آرگنائزیشن کے ساتھ تعلقات ہیں یا وہ ان کے ساتھ جڑنا چاہتے ہیں۔

ان سب میڈیا گھرانوں سے تبادلہ خیال میں ایک بات یکساں نظر آئی کہ مختلف میڈیا گھرانے اپنے چینل پر اس طرح کا مواد چلانے کے لئے مثبت نظر آئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کچھ میڈیا گھرانے نقد رقم لینے کے لئے تیار تھے۔

حوالے کا راستہ بتاتے ہوئے جین نے انڈر کور صحافی کو بتایا کہ ’’کچھ تاجر ہیں جو ہمیں آپ نقد رقم دیں گے اس کے بدلے وہ ہمیں چیک دے دیں گے‘‘۔ بات چیت میں رقم ٹرانسفر کرنے کے کئی اور ذرائع پر بھی گفتگو ہوئی۔

(رپورٹ کوبرا پوسٹ اسٹنگ آپریشن کے ویڈیوز کی بنیاد پر ہے اور ادارہ اس اسٹنگ آپریشن کے صحیح یا غلط ہونے کی ذمہ داری نہیں لیتا۔)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔