حج ہاؤس پر سیل مسلمانوں کے دل پر لگایا گیا تالا

اس حج ہاؤس میں چھ مہینے پہلے بھی تالا لگ گیا تھا اور اس کو زمین دوز کرنے کی اپیل عدالت میں کی گئی تھی۔ لیکن عدالت نے اس عرضی کو خارج کر دیا تھا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

آس محمد کیف

غازی آباد: ’’اعظم خان نے کبھی اسے اپنا ڈریم پروجیکٹ بتایا تھا، اچھا ہوتا وہ ایسا نہ کرتے۔ کیونکہ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ حج ہاؤس کے ساتھ یہ کھیل اعظم خان سے حکومت کی نفرت کی وجہ سے ہو رہا ہے یا پھر مسلمانوں کی وجہ سے۔ اب یہ اعظم خان کی وجہ سے تو ہو نہیں سکتا کیونکہ اگر ان سے نفرت ہوتی تو وہ اسمبلی میں اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر ہنستے کھلکھلاتے ہوئے نہ گھومتے اور نہ ہی ان کی یونیورسٹی کو حکومت 41 لاکھ کا تحفہ دیتی۔ ظاہر ہے یہ سرکاری دشمنی ایک قوم سے ہے۔ یہ سیل حج ہاؤس پر نہیں لگی ہے، مسلمانوں کے دل پر لگی ہے۔‘‘

مذکورہ بیان راج نارائن وِچار منچ کے سربراہ محبوب عالم کا ہے۔ غازی آباد باشندہ محبوب عالم جب ’قومی آواز‘ کے سامنے اپنا نظریہ پیش کرتے ہیں تو ان کے چہرے پر مایوسی، غصہ اور افسوس کی لکیریں بہ آسانی پڑھی جا سکتی ہیں۔ حج ہاؤس کی بنیاد اس وقت رکھی گئی تھی جب ملائم سنگھ یادو اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ تھے۔ بنیاد رکھے جانے کے بعد اس وقت وزیر برائے حج یعقوب قریشی اور اعظم خان میں ٹکراؤ شروع ہو گیا۔ ایک سال قبل اکھلیش یادو نے وزیر اعلیٰ اتر پردیش کی حیثیت سے افتتاح کیا۔ افتتاح کی کہانی بھی عجیب و غریب تھی کیونکہ آدھی ادھوری حالت میں کچی عمارت کا عیب چھپانے کے لیے رنگ کر دیا گیا۔

200 کمرے والے حج ہاؤس میں 51 کروڑ روپے خرچ ہوئے اور اسے اعلیٰ حضرت حج ہاؤس نام دیا گیا۔ مغربی اتر پردیش کے حاجیوں کی ٹیکہ کاری، حج کے لیے دہلی سے ہونے والی پرواز سے پہلے ٹھہرنے، ٹریننگ اور ضروری ہدایات کے مقصد سے اسے بنایا گیا لیکن اس کا صرف ایک مرتبہ ہی استعمال ہوا۔ اتنے بڑے حج ہاؤس میں چھ مہینے پہلے بھی تالا لگ گیا تھا اور اس کو زمین دوز کرنے کی اپیل عدالت میں کی گئی تھی۔ لیکن عدالت نے اس عرضی کو خارج کر دیا تھا۔ یہ بتانا بھی کم دلچسپ نہیں ہے کہ اس حج ہاؤس کی دیکھ بھال صرف ایک چپراسی رام نریش یادو کرتا ہے۔

غازی آباد میں رہنے والے پسماندہ مسلم سماج کے ضلعی صدر شکیل احمد اس پورے معاملے میں بتاتے ہیں کہ ’’یہ غلط فہمی ہے کہ حج ہاؤس پر سیل این جی ٹی نے لگائی ہے۔ این جی ٹی تو ایک مکھوٹا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حج ہاؤس یہاں ہندو پرست طاقتوں کی آنکھوں میں کھٹکتا رہتا ہے۔ دہلی سے لاکھوں زائرین حج روانہ ہوتے ہیں۔ اس حکومت کو بھگوان اور اللہ میں بھی فرق دکھائی دیتا ہے۔ یہ کام ہندوپرست طاقتوں کو خوش کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔‘‘

یہ بھی پڑھیں: اترپردیش: غازی آباد کا حج ہاؤس سیل

حج ہاؤس میں سیل لگنے کی کہانی کے پیچھے کچھ اور بھی باتیں پوشیدہ ہیں جس سے اکثر لوگ ناواقف ہیں۔ 30 اگست 2017 کو اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے یہاں کیلاش مان سروور بھون کی بنیاد رکھی۔ انھوں نے اعلان کیا کہ کانوڑیوں کو آرام کرنے کے لیے 90 کروڑ کی لاگت سے ایک عظیم الشان مان سروور بھون کی تعمیر ہوگی اور اس کے لیے جگہ کا انتخاب حج ہاؤس کے قریب ہی ہو گیا۔ بعد میں یہ جگہ بدل دی گئی۔ جگہ بدلنے پر وزیر اعلیٰ نے جو کہا اس پر غور کیجیے...

یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا تھا کہ ’’یہاں کے ممبر اسمبلی اور ممبر پارلیمنٹ ہم سے روزانہ پوچھتے تھے کہ یہاں کیلاش مان سروور یاترا بھون بنے گا؟‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’جس جگہ پہلے یہ بھون بننا تھا اس جگہ کو متنازعہ بنا کر پھر سے تاخیر کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن ہم نے قریب میں ہی دوسری جگہ خرید کر دوبارہ کام شروع کر دیا۔‘‘ ہنڈن ندی کے کنارے تعمیر حج ہاؤس بھی اسی طرح کے تنازعات کا شکار رہا۔ حج ہاؤس کے ڈوبنے والے علاقہ میں آنے کا معاملہ تھا۔ سٹی مجسٹریٹ پردیپ دوبے کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ ’’این جی ٹی کے حکم پر حج ہاؤس کو ایس ٹی پی نہ ہونے کی وجہ سے سیل کیا گیا ہے۔ ایس ٹی پی بننے کے بعد حج ہاؤس کو کھولا جا سکتا ہے۔‘‘

قابل ذکر ہے کہ تکنیکی اسباب کی بنا پر ایس ٹی پی یعنی سیویج ٹرانسپورٹ پلانٹ کسی بھی بڑی بلڈنگ میں پانی نکالنے کے لیے ہوتا ہے۔ چونکہ یہ ڈوبنے والا علاقہ ہے اس لیے این جی ٹی اس پر اعتراض کر سکتی ہے۔ اس سلسلے میں این جی ٹی کے افسر اشوک کمار تیواری کہتے ہیں ’’بغیر ایس ٹی پی کے کسی بھی عمارت کو سیل کیا جا سکتا ہے اس لیے اس کو بھی کیا گیا ہے۔ اس کی کوئی دوسری وجہ نہیں ہے۔‘‘

لیکن سوال یہ ہے کہ بغیر ایس ٹی پی کے یہ عمارت آخر تعمیر کس طرح ہو گئی اور ان تمام سرکاری ایکسپرٹ نے یہ بات پرانی حکومت کو کیوں نہیں بتائی؟ سوال یہ بھی ہے کہ پرانی حکومت کو اس کے افتتاح کی اتنی جلدی کیوں تھی؟ کیا افسروں نے قصداً کوئی کمی چھوڑ دی تھی یا پھر اس معاملہ میں ہندو پرست طاقتوں نے تنازعہ کی وجہ تلاش کر لی ہے؟ سماجوادی پارٹی کے اس وقت کے ضلع صدر ساجد چودھری کے سامنے جب یہ سوالات رکھے جاتے ہیں تو وہ چکرا جاتے ہیں۔ وہ صرف اتنا کہتے ہیں کہ ’’کچھ کمی نہیں، بس حج ہاؤس مسلمانوں کا ہے۔‘‘

اس پورے معاملے میں اعظم خان نے ابھی تک اپنا رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ ان سے رابطہ کرنے کی کئی بار کوششیں کی گئیں لیکن ناکامی ہاتھ لگی۔ انھوں نے حج ہاؤس معاملہ میں پوری طرح سے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ حیرانی کی بات ہے کہ یوگی حکومت میں وزیر برائے حج لکشمی نارائن چودھری بھی کسی سوال کا جواب دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ گویا کہ دونوں نے ہی خاموش رہنے اور جواب دہی سے بچنے کا راستہ اختیار کر لیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 21 Feb 2018, 9:03 PM