یوگی راج میں ذات پات کا خمیازہ بھگت رہے اسکولی بچے، آنکھیں موند کر بیٹھی انتظامیہ

دلت برادری سے تعلق رکھنے والی طالبہ سنگیتا کہتی ہیں کہ اسکول ٹیچر انہیں الگ قطار میں بیٹھنے کو کہتے ہیں اور جب دوپہر کا کھانا پیش کیا جاتا ہے تو انہیں دوسرے بچوں سے دور بیٹھنے کے لئے کہا جاتا ہے۔

علامتی تصویر
علامتی تصویر
user

قومی آوازبیورو

لکھنؤ: اتر پردیش میں اسکول کے بچے سیاست میں کی جا رہی ذات پات کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ سرکاری اسکولوں میں بچوں کے ساتھ ذات پات کی بنیاد پر امتیازی سلوک کے بے شمار واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ ان میں سے اکثر کو یا تو رپورٹ نہیں کیا جاتا یا کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔

گزشتہ سال امیٹھی میں سنگرام پور علاقے کے گدیری میں ایک پرائمری اسکول کی پرنسپل پر دوپہر کے کھانے کے وقت دلت بچوں کی الگ لائن لگوانے کا الزام لگایا گیا تھا۔ پرنسپل کسم سونی کے خلاف ایس سی/ایس ٹی پریوینشن آف ایٹروسیٹیز ایکٹ کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی اور انہیں معطل کر دیا گیا۔ اس معاملے کی اطلاع ضلع مجسٹریٹ کو بھی دی گئی جنہوں نے بنیادی تعلیم افسر کو جانچ کا حکم دیا۔ اسی طرح مین پوری ضلع کے ایک سرکاری اسکول میں دلت طلباء کے زیر استعمال برتنوں کو الگ کرنے کا معاملہ بھی سامنے آیا۔


بلیا کے ایک ریٹائرڈ اسکول ٹیچر رام پرکاش سریواستو کہتے ہیں کہ یہ خاص طور پر دیہی علاقوں میں ذات پات زندگی کا ایک اہم حصہ بنا ہوا ہے اور اس طرح کے جذبات اس قدر غالب ہیں کہ بچے تک دلت کا پکایا ہوا کھانا کھانے، یہاں تک دلت بچوں کے ساتھ بیٹھنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ ہم اسکول میں ہی معاملے کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جب کوئی ٹی وی چینل اس واقعے کو سامنے لاتا ہے تو کارروائی کی جاتی ہے۔

مشرقی یوپی حلقے کے گاؤں کے پردھان ونے کمار کہتے ہیں کہ ذات پات کے نظام نے مضبوط جڑیں پکڑ لی ہیں۔ جب تک مقامی ایم ایل اے یا ایم پی ذات پات کی بات کرتے رہیں گے، دلت بچوں کو اسکولوں میں ہراساں کیا جاتا رہے گا۔ اساتذہ ان کو مارتے یا ڈانٹتے ہوئے گالیاں دیتے ہیں اور ذات کی شناخت کے الفاظ کہتے ہیں۔ میرا تعلق دلت برادری سے ہے لیکن میں بچوں کی حفاظت کے لیے زیادہ کچھ نہیں کر سکتا کیونکہ مقامی ایم ایل اے اعلیٰ ذات سے تعلق رکھتے ہیں اور اسی طرح مقامی عہدیدار بھی اعلیٰ ذات سے ہیں۔


دلت برادری سے تعلق رکھنے والی کلاس چہارم کی طالبہ سنگیتا کہتی ہیں کہ اسکول ٹیچر انہیں الگ قطار میں بیٹھنے کو کہتے ہیں اور جب دوپہر کا کھانا پیش کیا جاتا ہے تو انہیں دوسرے بچوں سے دور بیٹھنے کے لئے کہا جاتا ہے۔ وہ کہتی ہے، "بڑے (اعلیٰ ذات کے) بچے میرے ساتھ نہیں کھیلتے اور انہیں پہلے کھانا ملتا ہے۔"

سنگیتا کہتی ہے کہ انہیں 'وی آئی پی اور اچھا کام' اسی وقت دیا جاتا ہے جب 'منتری جی' اسکول آتے ہیں۔ سنگیتا کی والدہ آشا کا کہنا ہے کہ ٹیچر انہیں سنگیتا کے سر پر تیل لگانے اور اس کے بالوں میں کنگھی کرنے کو کہتی ہیں اور اسے سکھایا جاتا ہے کہ مہمان سے کیسے بات کرنی ہے۔ اسے بدلے میں کینڈی ملتی ہے لیکن ایک بار جب دورہ ختم ہو جاتا ہے تو حالات پھر سے خراب ہو جاتے ہیں۔


پسماندہ طبقوں کے بچوں کے ساتھ کام کرنے والی رادھیکا سکسینہ کہتی ہیں کہ اسکولوں میں ذات پات کی تفریق بچوں، خاص طور پر لڑکیوں کو اسکول سے دور رکھنے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ جیسے جیسے بچے بڑے ہوتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ ناروا سلوک کیا جا رہا ہے، ان کے ڈراپ آؤٹ کی شرح بڑھ جاتی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔