ارنب گوسوامی کی عرضی پر فوری سماعت سے دُشینت دَوے ناراض، سپریم کورٹ سکریٹری جنرل کو خط لکھ کر پوچھے کئی سوالات

دُشینت دَوے نے اس بات پر اعتراض ظاہر کیا ہے کہ ایک طرف تو ارنب کی عرضی داخل ہوتے ہی سماعت کے لیے فہرست بند ہو گئی، لیکن دوسری طرف ایسے ہی کچھ معاملوں میں فوری کارروائی نہیں کی گئی۔

تصویر یو این آئی
تصویر یو این آئی
user

تنویر

عدالت عظمیٰ نے ریپبلک ٹی وی کے ایڈیٹر ان چیف ارنب گوسوامی کی عبوری ضمانت عرضی پر 11 نومبر کو سماعت کی، لیکن اس عرضی پر فوری سماعت کے تعلق سے سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن (ایس سی بی اے) کے سربراہ دُشینت دَوے نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے اس سلسلے میں سپریم کورٹ رجسٹری کے سکریٹری جنرل کو خط لکھا ہے جس میں کئی طرح کے سوال اٹھائے ہیں، اور خصوصاً اس پر حیرانی ظاہر کی ہے کہ عرضی داخل کرنے کے بعد اگلے ہی دن سماعت کے لیے لسٹ کس طرح کیا گیا۔

دُشینت دَوے نے اس بات پر اعتراض ظاہر کیا ہے کہ ایک طرف تو ارنب کی عرضی داخل ہوتے ہی سماعت کے لیے فہرست بند ہو گئی، لیکن دوسری طرف ایسے ہی کچھ معاملوں میں فوری کارروائی نہیں کی گئی۔ انھوں نے رجسٹری کے سکریٹری جنرل سے سوال کیا ہے کہ ’’کیا ارنب گوسوامی کی عرضی پر فوراً کارروائی کو لے کر چیف جسٹس ایس اے بوبڈے نے کوئی خصوصی ہدایت دے رکھی ہے؟


قابل ذکر ہے کہ ارنب گوسوامی نے 10 نومبر کو عبوری ضمانت کے لیے عرضی داخل کی تھی جس کو سماعت کے لیے 11 نومبر کی تاریخ میں فہرست بند کیا گیا۔ اس خبر کے بعد 10 نومبر کی رات دُشینت دَوے نے رجسٹری کے سکریٹری جنرل کو خط لکھ کر کئی طرح کے سوال کیے۔ اپنے خط میں انھوں نے کانگریس لیڈر پی چدمبرم کے مہینوں جیل میں رہنے کا حوالہ بھی دیا اور کہا کہ ان کی عرضی پر بھی فوری سماعت نہیں ہوئی تھی، پھر ارنب گوسوامی کی عرضی پر اتنی جلد سماعت کس طرح؟

دُشینت دَوے نے خط میں کہا کہ سسٹم کی خامیوں کی وجہ سے گوسوامی جیسے لوگوں کو خصوصی سہولت مل جاتی ہے جب کہ عام ہندوستانیوں کو جیل جانے سمیت تمام طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کئی بار تو انھیں غیر قانونی اور غلط طریقے سے جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ دُشینت دَوے نے سینئر ایڈووکیٹ اور کانگریس لیڈر پی چدمبرم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’یہاں تک کہ پی چدمبرم جیسے معروف سینئر وکیل کی عرضی کی بھی فوری لسٹنگ نہیں ہو سکی تھی اور انھیں مہینوں جیل میں گزارنا پڑا تھا، جب تک کہ سپریم کورٹ نے انھیں ضمانت کے لائق قرار نہیں دیا۔‘‘


دَوے نے اپنی چٹھی میں واضح لفظوں میں کہا کہ ’’میں یہ خط سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن کے سربراہ کی حیثیت سے کل جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس اندرا بنرجی کی بنچ میں سماعت کے لیے لسٹ کی گئی عرضی کے خلاف سخت احتجاج ظاہر کرنے کے لیے لکھ رہا ہوں۔ میرا گوسوامی سے کوئی ذاتی لینا دینا نہیں ہے اور میں سپریم کورٹ سے گزارش کرنے کے اس کے حق میں کسی طرح کی مداخلت کرنے کے مقصد سے یہ خط نہیں لکھ رہا۔ سبھی شہریوں کی طرح انھیں بھی سپریم کورٹ سے انصاف طلب کرنے کا حق ہے۔‘‘

سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن کے سربراہ نے مزید لکھا کہ ’’سنگین معاملہ یہ ہے کہ آپ کی قیادت میں رجسٹری کووڈ وبا کے دوران گزشتہ آٹھ مہینوں سے کیس کی لسٹنگ میں غیر جانبداری نہیں دکھا رہی ہے۔ ایک طرف ہزاروں شہری جیلوں میں بند ہیں اور سپریم کورٹ میں داخل ان کی عرضی سماعت کے لیے ہفتوں اور مہینوں تک لسٹ نہیں ہوتی ہیں۔ ایسے میں یہ بہت افسوسناک ہے کہ گوسوامی جب بھی سپریم کورٹ سے درخواست کرتے ہیں تو ہر بار ان کی عرضی فوراً کیوں اور کس طرح لسٹ ہو جاتی ہے۔‘‘


دَوے نے سکریٹری جنرل سے سوال کیا کہ ’’کیا اس سلسلے میں چیف جسٹس اور روسٹر کے ماسٹر نے کچھ خصوصی ہدایت یا حکم دے رکھے ہیں؟‘‘ وہ آگے لکھتے ہیں ’’یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ حیرت انگیز طور پر کسی کیس کی سماعت کے لیے فوری لسٹنگ چیف جسٹس کے خصوصی حکم کے بغیر نہیں ہو سکتی ہے اور نہ ہوتی ہے۔‘‘ بعد ازاں دَوے نے پھر سوال کیا کہ ’’کیا انتظامی سربراہ کی شکل میں آپ یا رجسٹرار گوسوامی کو خصوصی اہمیت تو نہیں دے رہے ہیں؟‘‘

کیس لسٹنگ کے لیے آٹو میٹک سسٹم سے چھیڑ چھاڑ کا الزام عائد کرتے ہوئے دُشینت دوے نے خط میں سوال اٹھایا ہے کہ ’’جب لسٹنگ کے لیے کمپیوٹرائزڈ سسٹم ہے، جس میں کام آٹومیٹک سطح پر ہوتا ہے تو پھر سلیکٹیو لسٹنگ کیوں ہو رہی؟ ایسا کیوں ہو رہا ہے کہ کیس اِدھر سے اُدھر گھوم رہے ہیں اور وہ بھی کچھ خاص بنچوں میں؟ سبھی شہریوں اور سبھی ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کے لیے مناسب اور غیر جانبدار سسٹم کیوں نہیں ہے؟‘‘


اپنے خط میں دُشینت دَوے نے واضح لفظوں میں کہا کہ گوسوامی کی عرضی کی فوری لسٹنگ اختیاری قوتوں کا پورا پورا غلط استعمال ہے۔ اس سے ایسا پیغام جاتا ہے کہ کچھ خصوصی وکلاء کے کیسز کو اسپیشل ٹریٹمنٹ ملتی ہے۔ انھوں نے گزارش کی کہ جب تک لسٹنگ کے لیے فل پروف سسٹم نافذ نہیں ہو جائے تب تک گوسوامی کی عرضی کی بھی لسٹنگ نہیں ہونی چاہیے۔ دَوے نے سکریٹری جنرل سے کہا کہ وہ اس خط کو اس بنچ کے سامنے پیش کریں جو گوسوامی کی عرضی پر سماعت کرے گی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔