بہار ووٹر لسٹ نظرثانی پر سپریم کورٹ میں اہم سماعت، عملدرآمد کے طریقہ کار پر سنگین سوالات

سپریم کورٹ میں بہار کی ووٹر لسٹ کے ایس آئی آر یعنی ’اسپیشل انٹینسیو رویژن‘ پر سماعت کے دوران درخواست گزاروں نے انتخابی عمل کو غیر شفاف، جلدبازی پر مبنی اور دستاویزی اصولوں کو غیر منصفانہ قرار دیا

<div class="paragraphs"><p>سپریم کورٹ آف انڈیا / آئی اے این ایس</p></div>

سپریم کورٹ آف انڈیا / آئی اے این ایس

user

قومی آواز بیورو

نئی دہلی: بہار میں ووٹر لسٹ کی ’اسپیشل انٹینسیو رویژن‘ (ایس آئی آر) کے عمل پر آج سپریم کورٹ میں اہم سماعت ہوئی، جس میں الیکشن کمیشن کے طریقہ کار، رفتار اور دستاویزی اصولوں پر سخت سوالات اٹھائے گئے۔ درخواست گزاروں کے وکلاء نے عدالت کو بتایا کہ ووٹر لسٹ کی نظرثانی قانون کے تحت ممکن ہے لیکن جس انداز سے بہار میں اسے نافذ کیا جا رہا ہے، وہ نہ صرف جلدبازی پر مبنی ہے بلکہ عوامی حقوق کے لیے خطرناک بھی ثابت ہو سکتا ہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے سماعت کے دوران عدالت کو بتایا کہ انہیں تاحال تمام درخواستوں کی نقول موصول نہیں ہوئی ہیں، جس کے باعث وہ تفصیلی جواب داخل نہیں کر سکے۔ وہیں درخواست گزاروں کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر وکیل گوپال شنکر نارائنن نے کہا کہ یہ نیا اصطلاح ’اسپیشل انٹینسیو رویژن‘ الیکشن کمیشن کی طرف سے گھڑا گیا ہے، جس کی پہلے کوئی واضح مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے کہا کہ 2003 میں بھی ایسی مشق کی گئی تھی لیکن اس وقت بہار میں ووٹروں کی تعداد نسبتاً کم تھی۔ اب جب کہ ریاست میں 7.5 کروڑ ووٹر ہیں، تو اتنے بڑے پیمانے پر جلد بازی میں ایسی مشق خطرناک نتائج دے سکتی ہے۔

وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو اختیار ضرور حاصل ہے لیکن عمل شفاف، قانون کے مطابق اور قابلِ عمل ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ واقعی ’گہری نظرثانی‘ ہے، تو افسران کو گھر گھر جا کر ووٹروں کی تصدیق کرنی چاہیے لیکن زمینی سطح پر ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔


درخواست گزاروں کی جانب سے یہ اعتراض بھی اٹھایا گیا کہ ووٹر لسٹ میں نام شامل کرنے کے لیے جن 11 دستاویزات کو تسلیم کیا جا رہا ہے، ان میں نہ تو آدھار کارڈ شامل ہے اور نہ ہی ووٹر آئی ڈی، جو عام طور پر شناخت کے سب سے معتبر ذرائع سمجھے جاتے ہیں۔ وکیل نے کہا کہ جب پورے ملک میں آدھار اور ووٹر آئی ڈی کو شناختی دستاویز مانا جاتا ہے، تو انہیں اس فہرست سے خارج کرنا غیر منطقی اور امتیازی عمل ہے۔

سماعت کے دوران جسٹس ایس سی دھولیا نے کہا کہ اگر 2003 میں ایسی نظر ثانی ہو چکی ہے اور ڈیٹا پہلے سے موجود ہے تو ہو سکتا ہے کہ گھر گھر جا کر تصدیق کی ضرورت نہ ہو۔ اس پر وکیل نے اعتراض کیا اور کہا کہ جن لوگوں کا نام پچھلی فہرست میں ہے، ان سے دوبارہ شناخت مانگنے کی کیا ضرورت ہے؟ خاص طور پر وہ لوگ جو بہار میں موجود نہیں، جیسے مہاجرین یا طلبہ، ان کا ووٹ کا حق خطرے میں پڑ سکتا ہے۔

جسٹس جوئے مالا باگچی نے کہا کہ عوامی نمائندگی قانون 1950 کی دفعہ 21(3) میں ’اسپیشل ریوژن‘ کی اجازت موجود ہے اور اس کا طریقۂ کار طے کرنا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے۔

وکیلوں نے یہ بھی کہا کہ آدھار، ووٹر آئی ڈی، منریگا کارڈ، برتھ سرٹیفکیٹ جیسے اہم دستاویزات کو مسترد کرنا الیکشن کمیشن کا من مانی عمل ہے۔ وکیل کپیل سبل نے سوال اٹھایا کہ شہری ہونے کا فیصلہ کرنے کا اختیار الیکشن کمیشن کو کس نے دیا؟ جس پر جسٹس دھولیا نے جواب دیا کہ یہ کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ یقینی بنائے کہ صرف اہل شہری ہی ووٹ ڈالیں۔

وکیل ورندا گروور نے بھی نشاندہی کی کہ راشن کارڈ جیسے عام اور ضروری دستاویز کو بھی تسلیم نہیں کیا جا رہا، جو کہ خاص طور پر غریب عوام کے لیے سب سے قابل رسائی شناختی ذریعہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے صرف 2 فیصد افراد کے پاس پاسپورٹ ہے، ایسے میں اسے واحد شہریت کا ثبوت ماننا غلط ہوگا۔


سینئر وکیل ابھیشیک منو سنگھوی نے دلیل دی کہ 2003 میں جب ایسی مہم ہوئی تھی، تو اس وقت انتخابات میں کافی وقت تھا، جبکہ اس بار عام انتخابات قریب ہیں، جس سے ووٹر لسٹ سے بڑی تعداد میں لوگوں کے نام خارج ہونے کا اندیشہ ہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل راکیش دیویدی نے دفاع میں کہا کہ صرف ہندوستانی شہریوں کو ووٹ کا حق ہے اور کمیشن شہری ہونے کی تصدیق کے لیے 11 قسم کے دستاویزات قبول کر رہا ہے۔ تاہم عدالت نے بھی سوال اٹھایا کہ یہ عمل پہلے کیوں شروع نہیں کیا گیا۔ جسٹس دھولیا نے کہا کہ اگر ایک بار ووٹر لسٹ تیار ہو گئی تو پھر عدالت اس میں مداخلت نہیں کرے گی، اس لیے احتیاط ضروری ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔