سپریم کورٹ سے علی خان محمودآباد کی عبوری ضمانت میں توسیع، اظہارِ رائے پر پابندی نہیں مگر تبصروں سے روک
سپریم کورٹ نے اشوکا یونیورسٹی کے پروفیسر علی خان محمودآباد کی عبوری ضمانت میں توسیع کرتے ہوئے ہدایت دی ہے کہ وہ مقدمے سے متعلق کوئی تبصرہ یا پوسٹ نہ کریں

پروفیسر علی خان محمود آباد / تصویر بشکریہ ایکس
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے بدھ کے روز اشوکا یونیورسٹی کے پروفیسر علی خان محمودآباد کی عبوری ضمانت میں توسیع کر دی۔ عدالت نے واضح کیا کہ ان کے اظہارِ رائے کے آئینی حق پر کوئی رکاوٹ نہیں، تاہم انہیں مقدمے سے متعلق کوئی آن لائن تبصرہ کرنے، مضمون لکھنے یا تقریر کرنے سے روکا گیا ہے۔
جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس این کے سنگھ پر مشتمل دو رکنی بنچ نے یہ فیصلہ سنایا۔ عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ ’’محمودآباد کے اظہارِ رائے کے حق پر کوئی قدغن نہیں ہے، مگر چونکہ معاملہ حساس نوعیت کا ہے، اس لیے وہ سوشل میڈیا یا کسی بھی پلیٹ فارم پر ان مقدمات کے بارے میں کچھ نہیں کہیں گے۔‘‘
یہ پیشرفت محمودآباد کو دی گئی ایک ہفتے پرانی عبوری ضمانت میں توسیع کے طور پر سامنے آئی ہے۔ ان کے خلاف ہریانہ میں دو ایف آئی آرز درج ہیں، جن میں الزام ہے کہ انہوں نے 'آپریشن سندور' سے متعلق سوشل میڈیا پر ایسا مواد شیئر کیا جو مبینہ طور پر اشتعال انگیز ہے۔ عدالت نے ان پوسٹس کو ابتدائی سماعت میں ’ڈاگ وسلنگ‘ یعنی درپردہ اشتعال انگیزی قرار دیا تھا۔
گزشتہ ہفتے عدالت نے ان ایف آئی آرز کی تفتیش کو روکنے سے انکار کرتے ہوئے ریاستی پولیس سربراہ کو ہدایت دی تھی کہ وہ تین سینئر آئی پی ایس افسران پر مشتمل ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) تشکیل دیں، جن میں ایک خاتون افسر لازمی طور پر شامل ہو۔ بدھ کو سماعت کے دوران ہریانہ حکومت نے عدالت کو مطلع کیا کہ ایس آئی ٹی تشکیل دے دی گئی ہے، جس پر عدالت نے اس ٹیم کی رپورٹ آئندہ سماعت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے میں ایک اہم نکتہ یہ بھی شامل ہے کہ عدالت نے علی خان محمودآباد کو کسی بھی قسم کے بیانات یا تحریروں سے روکنے کے باوجود، ان کے آئینی حق یعنی آزادیِ اظہارِ رائے کی توثیق کی ہے۔ عدالت نے کہا کہ ایسی ہدایت صرف اس مخصوص معاملے تک محدود ہے اور اس کا مقصد عدالتی کارروائی یا تفتیش پر اثر انداز ہونے سے روکنا ہے۔
واضح رہے کہ علی خان محمودآباد، اشوکا یونیورسٹی کے شعبۂ سیاسیات کے سربراہ ہیں اور انہیں 18 مئی کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کی گرفتاری سے قبل ہریانہ ریاستی خواتین کمیشن نے ان کے سوشل میڈیا بیانات پر نوٹس جاری کیا تھا، جنہیں مبینہ طور پر خواتین فوجی افسران کے خلاف سمجھا گیا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔