گجرات فرضی انکاؤنٹر: سپریم کورٹ سے بی جے پی کو جھٹکا، رپورٹ ہوگی برسرعام

صحافی وی جی ورگیز اور نغمہ نگار جاوید اختر نے سپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کر فرضی پولس تصادم میں 22 ہلاک نوجوانوں کی جانچ کرانے کا مطالبہ کیا تھا جس کی رپورٹ سابق جسٹس بیدی نے پیش کی ہے۔

سپریم کورٹ
سپریم کورٹ
user

قومی آوازبیورو

سپریم کورٹ نے 9 جنوری کو گجرات فرضی انکاؤنٹر معاملہ پر انتہائی اہم فیصلہ سناتے ہوئے گجرات حکومت کو زبردست جھٹکا دیا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے ریاستی بی جے پی حکومت کی اس عرضی کو خارج کر دیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ ریٹائرڈ جسٹس ایچ ایس بیدی کی جانچ رپورٹ کو برسرعام ہونے سے روکا جائے۔ اس تعلق سے بدھ کے روز عدالت نے واضح لفظوں میں کہہ دیا کہ ’’گجرات کے مبینہ 22 فرضی انکاؤنٹر پر مبنی سابق جسٹس بیدی کی جانچ رپورٹ کو سامنے آنے سے نہیں روکا جا سکتا۔‘‘ 2002 سے 2006 کے درمیان ہوئے ان مبینہ 22 فرضی تصادم کی جانچ رپورٹ ایچ ایس بیدی نے عدالت کے حوالے کرنے کے ساتھ ساتھ اپیل کی تھی کہ اس کو عرضی دہندہ کے ساتھ شیئر کیا جائے۔

دراصل سال 2007 میں سینئر صحافی وی جی ورگیز اور معروف نغمہ نگار جاوید اختر نے سپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کی تھی جس میں 2002 سے 2006 کے درمیان خاص طبقہ سے تعلق رکھنے والے نوجوان کو فرضی پولس تصادم میں مارے جانے کے واقعہ کی سی بی آئی یا ایس آئی ٹی کے ذریعہ جانچ کرانے کی گزارش کی گئی تھی۔ اس سلسلے میں جانچ کے لیے سبکدوش جج ایم بی شاہ کی قیادت میں ایک جانچ کمیٹی تشکیل دی گئی تھی لیکن بعد میں مسٹر شاہ نے اپنے قدم پیچھے کھینچ لیے جس کے بعد یہ ذمہ داری سابق جسٹس ایچ ایس بیدی کو دی گئی تھی۔ عرضی دہندگان کا الزام تھا کہ فرضی تصادم میں مارے گئے 22 سے 37 سال عمر کے نوجوانوں پر الزام تھا کہ انھوں نے گجرات کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کے قتل کی سازش تیار کی تھی۔

اس مبینہ فرضی تصادم کی جانچ رپورٹ سیل بند لفافے میں ایچ ایس بیدی کمیٹی نے 2018 کے آغاز میں ہی سپریم کورٹ کے حوالے کر دی تھی لیکن اس وقت کے چیف جسٹس آف انڈیا دیپک مشرا نے کئی دیگر اہم معاملوں کے سبب اس رپورٹ پر بعد میں غور کرنے کے لیے چھوڑ دیا تھا۔ رنجن گوگوئی کے ذریعہ چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالے جانے کے بعد وکیل پرشانت بھوشن نے عدالت سے اپیل کی تھی کہ جانچ رپورٹ فریقِ استغاثہ کے ساتھ شیئر کی جانی چاہیے۔ اس اپیل کی مرکزی حکومت کے اٹارنی جنرل تشار مہتا نے مخالفت کی تھی اور ان کا کہنا تھا کہ اسے برسرعام نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن 9 جنوری کو سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے واضح طور پر کہہ دیا کہ رپورٹ برسرعام ہونے سے نہیں روکا جا سکتا۔ اس پورے معاملے پر عدالت نے حکومت کو اپنی بات رکھنے کے لیے وقت دیتے ہوئے کہا ہے کہ آئندہ سماعت جنوری کے تیسرے ہفتہ میں ہوگی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔