سملیٹی بم دھماکہ: 6 مسلم ملزمین بری، لیکن ان کے اہم ترین 23 سال کون لوٹائے گا!

بری کیے گئے 6 افراد میں سے ایک کا کہنا ہے کہ ’’میں نے کئی رشتہ داروں کو کھو دیا۔ اس درمیان والدہ، والد، دو چچا اس دنیا سے گزر گئے۔ اب میں بری کر دیا گیا ہوں، لیکن گزرے ہوئے سال مجھے واپس کون کرے گا۔‘‘

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

راجستھان ہائی کورٹ نے 23 سال قدیم سملیٹی بم دھماکہ معاملہ میں 6 ملزمین کو بری کر دیا۔ یہ فیصلہ عدالت نے 23 جولائی کو سنایا، اور اب مسلم طبقہ سے تعلق رکھنے والے بری سبھی 6 افراد اس غم سے بے حال ہیں کہ ان کی زندگی کے اہم ترین 23 سال ختم ہو گئے، اس کا ازالہ کیسے ہوگا۔ کسی کا بزنس ختم ہو گیا، کسی کا تعلیمی سلسلہ ٹوٹ گیا، کسی کا کیریر تباہ ہو گیا تو کسی کے قریبی رشتہ دار ہی ان 23 برسوں میں دنیا سے چلے گئے۔

راجستھان ہائی کورٹ نے 1996 میں دوسا ضلع کے سملیٹی علاقہ میں ہوئے بم دھماکہ معاملہ میں جن 6 ملزمین کو منگل کے روز بے قصور ٹھہرایا، ان کے نام رئیس بیگ، جاوید خان، لطیف احمد باجہ، محمد علی بھٹ، مرزا نثار حسین اور عبدالغنی ہیں۔ ان سبھی کو دوسا کے باندی کوئی واقع مقامی عدالت نے ستمبر 2014 میں عمر قید کی سزا سنائی تھی، لیکن ہائی کورٹ نے اس فیصلہ کو بدل دیا۔ ان ملزمین کے وکیل شاہد حسین نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ ’’بنچ نے دیے گئے فیصلہ میں اعتراف کیا کہ فریق استغاثہ سبھی 6 لوگوں کے خلاف الزام ثابت کرنے میں ناکام رہا۔‘‘


بری کیے گئے لوگوں میں سے رئیس بیگ کا تعلق آگرہ سے ہے جب کہ پانچ دیگر لوگ جموں و کشمیر کے باشندہ ہیں۔ جب عدالت نے انھیں بری کرنے کا فیصلہ سنایا تو ساتھ میں ہی کہا کہ ایسا کوئی ثبوت موجود نہیں جو سملیٹی بم دھماکہ کے اہم ملزم اور پھانسی کی سزا سنائے گئے ڈاکٹر عبدالحمید کے ساتھ ان کا رشتہ جوڑتا ہو۔ منگل کے روز جب ملزمین کو ریلیز کیا گیا تو ایک میڈیا سے انھوں نے بتایا کہ کریمنل انوسٹیگیشن ڈپارٹمنٹ (کرائم برانچ) کے ذریعہ کیس کا ملزم بنائے جانے سے قبل وہ ایک دوسرے کو جانتے بھی نہیں تھے۔ سملیٹی دھماکہ میں کیس بنائے جانے سے قبل محمد علی بھٹ کارپیٹ کا بزنس کرتے تھے، مرزا نثار نویں درجہ کے طالب علم تھے اور عبدالغنی ایک اسکول چلاتے تھے۔ لطیف احمد باجہ دہلی اور کاٹھمنڈو میں کشمیری ہینڈی کرافٹ فروخت کیا کرتے تھے۔ ان سبھی کی زندگی پچھلے 23 سالوں میں تہس نہس ہو کر رہ گئی ہے۔

عبدالغنی ایک انگریزی روزنامہ سے بات چیت کے دوران بتاتے ہیں کہ ’’مجھے نہیں پتہ کے اس درمیان دنیا میں کیا کچھ ہوا۔‘‘ رئیس بیگ اپنا درد بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ میں نے ان سالوں میں اپنے کئی رشتہ داروں کو کھو دیا ہے۔ میری والدہ، والد، دو چچا اس دنیا سے گزر گئے ہیں۔ میں بری کر دیا گیا ہوں، لیکن گزرے ہوئے سال مجھے واپس کون کرے گا۔‘‘


9ویں درجہ میں رہتے ہوئے ملزم بنائے گئے نثار تکلیف بھرے 23 سالوں کے گزرنے کے بعد اب ایک نئی شروعات کرنا چاہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’مجھے جب ملزم بنایا گیا تھا تو میں 16 سال کا تھا، لیکن افسروں نے 19 سال بتایا۔ اب میں 39 سال کا ہوں اور شادی کر کے اپنی زندگی کو ایک نئی شروعات دینا چاہتا ہوں۔‘‘

آزادی ملنے کے بعد کچھ اپنے رشتہ داروں سے فون پر بات کرنے کے لیے بے چین نظر آ رہے تھے تو کچھ جماعت اسلامی ہند دفتر کے شکرگزار نظر آ رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ انھیں بے قصور ثابت کرانے میں اس ادارے کا کردار بہت اہم رہا۔ ان کی خوشی کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب انھیں کھانا کھانے کے لیے کہا گیا تو انھوں نے منع کر دیا، کیونکہ انھیں آزادی مل گئی تھی جس کی خوشی نے ان کی بھوک کو ختم کر دیا۔ خوشی تو ان کے اہل خانہ میں بھی ہے، لیکن ساتھ ہی افسوس بھی کہ ناکردہ گناہوں کی سزا ایسی ملی جس نے سب کچھ تباہ کر دیا۔


واضح رہے کہ 22 مئی 1996 کو بیکانیر سے آگرہ جا رہی راجستھان روڈویز کی بس میں ہوئے بم دھماکہ میں 14 لوگوں کی موت ہو گئی تھی اور 37 لوگ زخمی ہو گئے تھے۔ باندی کوئی کی مقامی عدالت نے عبدالحمید کو بم دھماکہ کا اہم ملزم مانا تھا اور سلیم نامی شخص کو اسلحہ سپلائی کرنے کا ملزم مانا تھا۔ عبدالحمید کو جہاں پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے وہیں سلیم کو سزائے عمر قید ملی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔