سمجھوتہ ایکسپریس فیصلہ: والدین کو کھویا ہے، ملزمان کو آزاد نہیں گھومنے دونگا، ذاکر کا عہد

سال 2007 میں ذاکر کے والد محمد صادق اور والدہ اشرف النساء اپنے رشتہ داروں سے ملنے دہلی سے لاہور جا رہے تھے، دھماکہ میں دونوں جانبحق ہوئے، والدہ کی لاش آج تک نہیں مل سکی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

سمجھوتہ ایکسپریس دھماکہ معاملہ پر پنچکولہ کی خصوصی این آئی اے کی عدالت نے گزشتہ روز اپنا فیصلہ سناتے ہوئے اسیمانند سمیت تمام 4 ملزمان کو باعزت بری کر دیا۔ اس فیصلہ سے ان متاثرین کو شدید دھچکا پہنچا ہے جن کے زخم آج تک ہرے ہیں اور انصاف کے منتظر ہیں۔

این آئی اے کی عدالت کی طرف سے چاروں ملزمان کو رہا کیے جانے کی وجہ سے اتر پردیش کے بجنور کے رہائشی محمد ذاکر بھی فیصلہ کے بعد سے مایوس ہیں۔ فیصلہ سنائے جانے کے بعد ذاکر کے بقول وہ خود کو بے عزت محسوس کر رہے ہیں۔ تقریباً 12 برس قبل ذاکر نے سمجھوتہ ایکسپریس دھماکہ میں اپنے والدین کو کھو دیا تھا اور والدہ کی لاش تو آج تک نہیں مل پائی ہے۔ اس دھماکہ میں خود ذاکر کے بھی پیر جل گئے تھے۔ انگریزی روزنامہ ’انڈین ایکسپریس ‘ کی رپورٹ کے مطابق دھماکہ کی آواز آج بھی محمد ذاکر کے کانوں میں گونجتی ہے۔

محمد ذاکر نے انڈین ایکسپریس سے کہا، ’’میں نے کورٹ کے سامنے بطور گواہ اپنا بیان درج کرایا تھا۔ میں فیصلہ سے مطمئن نہیں ہوں۔ میں اپنے اہل خانہ سے تبادلہ خیال کے بعد اس فیصلہ کے خلاف اپیل کروں گا۔ میں نے اپنے والدین کو کھویا ہے، میں ملزمان کو آزاد نہیں گھومنے دوں گا۔‘‘

قابل ذکر ہے کہ 18 فروری 2007 کو سمجھوتہ ایکسپریس میں ہوئے دھماکہ میں ذاکر کے والد صادق (68)، والدہ اشرف النساء (62) ان کے ہمراہ لاہور میں اپنے رشتہ داروں سے ملنے جا رہے تھے۔ پانی پت کے نزیک یہ دھماکہ پیش آیا اور اس کے بعد ذاکر کی آنکھ دہلی کے صفدر جنگ اسپتال میں کھلی، وہاں انہیں علاج کے لئے 40 دنوں تک رہنا پڑا تھا۔

ذاکر اس ہولناک دن کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’میرے بڑے بھائی افتخار احمد فوراً پانی پت پہنچے لیکن والدین انہیں نہیں مل سکے، ان کے بارے میں کوئی معلومات بھی نہیں مل رہی تھی۔ وہ واپس آئے اور پاسپورٹ کی کاپی لے کر پھر سے پولس کے پاس پہنچے۔ ایک لاش کے خون کا ڈی این اے ٹیسٹ کرایا گیا والدہ کی ہلاکت کی تصدیق تو ہو گئی لیکن لاش آج تک نہیں مل پائی ہے۔‘‘

ذاکر نے کہا، ’’میں نے والد کے لئے تقریباً دو سال تک بھاگ دوڑ کی۔ ریلوے نے ہلاک شدگان کو معاوضہ کے طور پر 10-10 لاکھ روپے دیئے تھے۔ مجھے آج تک والد کی موت پر کوئی معاوضہ نہیں ملا۔ ‘‘ آج ذاکر 7 بچوں کے والد ہیں اور بجنور میں درزی کی دکان چلاتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں، ’’اس دھماکہ سے پہلے میں تین مرتبہ اپنے ماموں سمیت دیگر رشتہ داروں سے ملاقات کے لئے پاکستان گیا تھا لیکن سمجھوتہ ایکسپریس دھماکہ کے بعد سے خاندان کا اکوئی شخص وہاں نہیں گیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 21 Mar 2019, 1:09 PM