سنبھل جامع مسجد تنازعہ: جوڈیشل کمیشن نے وزیر اعلیٰ یو پی کو سونپی رپورٹ، سماجوادی پارٹی نے تشویش کا اظہار کیا

سنبھل جامع مسجد کے سروے کے دوران 24 نومبر 2024 کو ہونے والے ہنگامے کی عدالتی رپورٹ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو پیش کی گئی، سماجوادی پارٹی نے رپورٹ پر تشویش ظاہر کی

<div class="paragraphs"><p>تصویر آئی اے این ایس</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

لکھنؤ: یوپی کے ضلع سنبھل میں 24 نومبر 2024 کو شاہی جامع مسجد میں سروے کے دوران ہونے والے ہنگامے کی عدالتی رپورٹ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو پیش کر دی گئی ہے۔ یہ رپورٹ سنبھل جامع مسجد تنازعہ کی تحقیقات کے لیے قائم کئے گئے جوڈیشل کمیشن نے تیار کی۔

یوپی حکومت نے عدالتی کمیشن کا قیام الہ آباد ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جسٹس دیویندر کمار اروڑہ کی صدارت میں کیا تھا۔ کمیشن میں ریٹائرڈ آئی اے ایس افسر امت موہن اور ریٹائرڈ آئی پی ایس افسر اروِند کمار جین شامل تھے۔

سماجوادی پارٹی کے ترجمان فخر الحسن چاند نے رپورٹ کی خفیہ نوعیت پر سوالات اٹھائے اور کہا، ’’سنبھل جامع مسجد تنازعہ کے حوالے سے یہ عدالتی رپورٹ وزیر اعلیٰ یوپی کو سونپی گئی ہے، مگر میڈیا میں شیئر نہیں کی گئی۔ ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی حکومت خفیہ رپورٹ کے ذریعے عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانا چاہتی ہے۔‘‘

مولانا ساجد رشیدی نے کہا کہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ضلع میں ہندو آبادی پہلے 45 فیصد تھی، مگر اب یہ شرح 15 فیصد رہ گئی ہے، کیونکہ بار بار ہونے والے ہنگاموں کی وجہ سے لوگ ہجرت کر چکے ہیں۔ انہوں نے رپورٹ کو جانب داری پر مبنی قرار دیا۔


مولانا رشیدی نے مزید کہا کہ ’’سنبھل میں مندر کے حوالے سے بھی تنازعہ کی بات کی گئی، کہا گیا کہ مندر کی دیواریں ڈھک دی گئی ہیں لیکن ایسا نہیں تھا۔ خود مندر کے پجاری نے تصدیق کی کہ کسی نے انہیں جانے پر مجبور نہیں کیا، وہ اپنے کام کی وجہ سے منتقل ہوئے۔ ان حقائق کے باوجود رپورٹ کو خفیہ پیش کرنا ممکنہ ہنگاموں کو بڑھا سکتا ہے اور عوام کے لیے نقصان دہ ہوگا۔‘‘

واضح رہے کہ 24 نومبر 2024 کو شاہی جامع مسجد میں سروے کے دوران ہزاروں افراد جمع ہوئے، اس دوران تشدد بھڑک اٹھا۔ اس دوران ہونے والی فائرنگ اور پتھربازی کے نتیجے میں چار افراد ہلاک ہوئے۔ بھیڑ نے کئی گاڑیاں نذر آتش بھی کر دی تھیں۔ اس معاملے میں متعدد مظاہرین کو جیل بھیجا جا چکا ہے۔

کمیشن کی رپورٹ پیش کرنے کا مقصد سنبھل جامع مسجد تنازعہ کی اصل وجوہات، ذمہ داروں کی شناخت اور آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے سفارشات تیار کرنا تھا۔ سیاسی اور مذہبی حلقوں کی جانب سے رپورٹ کی خفیہ نوعیت پر تشویش، اس کی شفافیت اور عوامی ردعمل کے امکانات پر بحث کو جنم دے رہی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔