سلیمہ خان، جنہوں نے 92 سال کی عمر میں پڑھنا لکھنا شروع کیا، بلند شہر کے پورے گاؤں کو دے رہیں تحریک

سلیمہ کہتی ہیں ’’مجھے اپنا پہلا دن یاد ہے جب ہیڈ مسٹریس نے مجھے ایک کتاب دی تھی۔ میرے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ میں نہیں جانتی تھی کہ قلم کیسے پکڑا جائے

<div class="paragraphs"><p>تصویر بشکریہ ٹائمز آف انڈیا</p></div>

تصویر بشکریہ ٹائمز آف انڈیا

user

قومی آوازبیورو

شہر بلند سے تعلق رکھنے والی 92 سالہ سلیمہ خان نامی خاتون نے بالآخر تعلیم حاصل کرنے کا اپنی عمر بھر کا خواب پورا کر دیا۔ انہوں نے برسوں تک طالب علموں کو اپنے گھر کے قریب گورنمنٹ پرائمری اسکول میں داخل ہوتے دیکھا اور خود بھی اس میں داخل ہونے کی خواہش کرنے لگیں۔ انہوں نے آٹھ مہینے پہلے ہمت کر کے کلاس روم میں بیٹھنے کی درخواست کی اور ہیڈ مسٹریس نے انہیں ایسا کرنے کی اجازت دے دی۔

ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق سلیمہ نے وہ امتحان دے دیا ہے، جس کا نتیجہ انہیں ’خواندہ‘ قرار دے گا۔ امتحان کے بعد انہوں کہا ’’میں نے کبھی اسکول میں قدم نہیں رکھا تھا، تاہم ہر روز، میں بلند شہر کے گاؤں چاولی میں اپنے گھر کے سامنے گورنمنٹ پرائمری اسکول میں داخل ہونے والے طالب علموں کی خوشی اور شور و غل سنن کر میرے دل میںن ہمیشہ ان کے ساتھ پڑھنے کی خواہش زور مارتی تھی۔‘‘


وہ کہتی ہیں کہ ’’پڑھنے میں کیا حرج ہے؟‘‘ وہ ضعیف خاتون جو اب بچوں کو ہجوم بناتے اور ہنگامہ کرتے دیکھنے کی عادی ہو چکی ہیں، ان کے ساتھ بیٹھتی ہیں اور ان کی باتوں پر بغیر دانتوں کے مسکراتی ہیں۔ ان میں سے کچھ بچے ان کے پڑپوتوں کی عمر کے ہیں۔

سلیمہ نے چھ ماہ کی تعلیم مکمل کر لی ہے اور وہ لکھنا پڑھنا سیکھ گئی ہیں۔ ان کی ایک سے لے کر 100 تک کی گنتی کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے۔ انہیں اسکول جانے اور وہاں سے واپس آنے میں گھر کے کسی فرد کی ضرورت پڑتی ہے لیکن یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ "اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اہم یہ ہے کہ میں اب اپنے نام کے دستخط کر سکتی ہوں۔ پہلے میرے پوتے چلاکی سے مجھ سے زیادہ پیسے لے لیتے تھے کیونکہ میں نوٹ نہیں گن سکتا تھی۔ اب وہ دن گزر چکے ہیں۔‘‘

مرکزی حکومت کی طرف سے ’ساکشر بھارت ابھیان‘ کے تحت 15 سال یا اس سے زیادہ عمر کے غیر خواندہ افراد کے لیے ایک امتحان لیا جاتا ہے، جسے خوانگی کا امتحان کہا جاتا ہے۔ اتوار کو جب وہ یہ امتحان دے رہی تھیں، تو امتحانی ہال میں توجہ کا مرکز بنی ہوئی تھی۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ ’’مجھے کوئی فکر نہیں ہے۔ کیونکہ میرا امتحان اچھا گیا ہے۔‘‘

پرائمری اسکول کی ہیڈ مسٹریس ڈاکٹر پرتیبھا شرما نے کہا، ’’سلیمہ تقریباً آٹھ ماہ قبل ہمارے پاس آئیں اور درخواست کی کہ انہیںن کلاس روم میں بیٹھنے کی اجازت دی جائے۔ ایسے بزرگ کو تعلیم دینا ایک مشکل کام ہے، اس لیے ہم شروع میں قدرے تذبذب کا شکار تھے۔ تاہم، زندگی کے موسم خزاں میں مطالعہ کرنے کے ان کے شوق نے ہمیں اپنا ذہن تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا۔‘‘


شرما نے مزید کہا کہ ’’گاؤں میں ایک ناقابل یقین تبدیلی واقع ہوئی ہے ۔ سلیمہ کے جوش کو دیکھ کر ان کی دو بہوؤں سمیت گاؤں کی 25 خواتین کلاس میں شامل ہونے کے لیے آگے آئی ہیں۔ اب، ہم نے ان کے لیے الگ سیشن شروع کیے ہیں۔‘‘

سلیمہ کی پوتی فردوس نے، جو ہر روز اس کے ساتھ اسکول جاتی ہیں، نے کہا، ’’ان کی عمر میں اس طرح کی لگن واقعی متاثر کن ہے۔ وہ کمزور ہیں اور چہل قدمی کے دوران انہیں مدد کی ضرورت ہوتی ہے لیکن پھر بھی وہ ہر روز صبح اٹھ کر اسکول کے لیے تیار ہوتی ہیں۔ انہیں دیکھ کر ہم امید سے بھر جاتے ہیں۔‘‘

سلیمہ کہتی ہیں ’’مجھے اپنا پہلا دن یاد ہے جب ہیڈ مسٹریس نے مجھے ایک کتاب دی تھی۔ میرے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ میں نہیں جانتی تھی کہ قلم کیسے پکڑا جائے۔ اگرچہ میں گھبرا رہی تھی مگر میری خوشی کی کوئی حد نہیں تھی۔ میری شادی 14 سال کی عمر میں ہوئی تھی اور اس وقت ہمارے گاؤں میں کوئی اسکول نہیں تھا۔ پھر میں ماں بن گئی اور زندگی نے اپنا راستہ اختیار کیا لیکن دیر آید درست آید۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔