لداخ کو صوبہ قرار دینے کے فیصلے سے جموں وکشمیر میں سیاسی بے چینی: پروفیسر سوز

پروفیسر سوز نے کہا کہ گورنر ستیہ پال ملک کے لداخ خطے کو علیحدہ ڈویژن قرار دینے سے سیاسی بے چینی کی فضا پید ہو گئی ہے، کیونکہ گورنر نے لداخ خطے کی سیاسی جماعتوں سے اس مسئلے پر کوئی گفت و شنید نہیں کی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

سری نگر: کانگریس لیڈر اور سابق مرکزی وزیر پروفیسر سیف الدین سوز نے کہا کہ ریاستی گورنر ستیہ پال ملک کے لداخ خطے کو علیحدہ صوبہ قرار دینے کے فیصلے سے اس خطے میں سیاسی بے چینی پیدا ہوگئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں یہ فیصلہ صادر کرنے سے پہلے کرگل کی سبھی سیاسی جماعتوں کے ساتھ بات کرنی چاہیے تھی۔

پروفیسر سوز نے گزشتہ روز یہاں جاری اپنے ایک بیان میں کہا 'گورنر ستیہ پال ملک صاحب نے لداخ خطے کو علیحدہ ڈویژن قرار دے کر اُس خطے میں بے چینی کی فضا پید ا کر دی ہے۔ بنیادی طور پر یہ بے چینی اس لئے پیدا ہو گئی ہے کہ گورنر ملک نے لداخ خطے کی سیاسی جماعتوں کے ساتھ اس مسئلے پر کوئی گفت و شنید نہیں کی ہے۔ اُن کو خاص طور پر کرگل خطے کی سبھی سیاسی جماعتوں کے ساتھ بات کرنا چاہیے تھی'۔

انہوں نے کہا 'گورنر ملک کا طرز و فکر بنیادی طور پر ٹھیک نہیں ہے کیونکہ وہ اپنے عہدے کو منتخب حکومت کا نعم البدل سمجھتے ہیں جو بالکل غلط ہے۔ اُن کو یہ سوچنا چاہیے کہ وہ عارضی طور پر مرکز کی نمائندگی کرتے ہیں اور وہ کسی بھی طرح بھی جموں وکشمیر کے لوگوں کے نمائندہ تصور نہیں کیے جاسکتے! مجھے یقین ہے کہ گورنر ملک کو ایسا اقدام لینے سے پہلے اُن سیاسی پیچیدگیوں کا علم نہیں ہوگا جو اب منصہ شہود پر آئی ہیں'۔

پروفیسر سوز نے کہا 'سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا گورنر کو یہ بات مناسب نہیں لگی تھی کہ کرگل کے سیاسی اکابرین کے ساتھ اس بات پر گفت و شنید ہونی چاہیے کیونکہ کرگل خطہ بجائے خود، جغرافیہ، تاریخ، ثقافت، مذہب اور لسانی بنیاد پر ایک مخصوص اور علیحدہ خطہ ہے!'۔

انہوں نے کہا 'ادھر دوسری طرف گورنر ملک کو یہ سوچنا چاہیے کہ یہ بات اُن کے فرائض منصبی میں شامل ہے کہ وہ بنیادی نوعیت کے فیصلوں کے بارے میں سبھی سیاسی جماعتوں سے تبادلہ خیالات کرنے کے بعد فیصلہ لیا کریں۔ کیا اُن کی تین نفری مشاورت کی کمیٹی ریاست جموں وکشمیر کے پولیٹیکل کلاس کے برابر تصور ہو سکتی ہے؟ فی الحال اُن کے تازہ فیصلے سے اُس خطے میں ہلچل اور بے چینی پیدا ہو گئی ہے'۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔