جے این یو کا لال رنگ برقرار

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

وشو دیپک

نئی دہلی: جے این یو طلبہ یونین انتخابات میں لیفٹ پینل نے اپنا پرچم لہرا تے ہوئے تمام چاروں نشستوں پر جیت حاصل کر لی ہے۔ حالیہ دنوں میں لیفٹ نظریہ پر کافی حملے کئے گئے ہیں، دانشوران اور ادیبوں کو بھی غلط ٹھہرانے کا سلسلہ چل رہا ہے ۔ اس سب کے باوجود جواہر لعل یونیورسٹی (جے این یو ) کے طلبہ نے انتخابات میں لیفٹ نظریہ پر اپنا عقیدہ برقرار ررکھتے ہوئے بھگوا گروپ کو شکست فاش سے دو چار کرایا ہے۔

تفصیلی خبر کے لئے یہاں کلک کریں... جے این یو:طلبہ یونین کی تمام سیٹوں پر لیفٹ کا قبضہ

انتخابات کے اس نزدیکی مقابلہ میں جے این یو طلبہ نے بھگوا کی بجائے لال پرچم کو ترجیح دی۔ لیفٹ اتحاد نے سینٹرل پینل کی تمام چاروں نشستوں پر قبضہ جماتے ہوئے اے بی وی پی کے اثر کو فی الحال زمیں دوز کر دیا ہے۔ صدر عہدے کے لئے مشترکہ لیفٹ اتحاد (اے آئی ایس اے۔ایس ایف آئی۔ ڈی ایس ایف) کی امید وار گیتا کماری کو 1506 ووٹ حاصل ہوئے جبکہ ان کی حریف اے بی وی پی (آر ایس ایس سے وابستہ تنظیم) کی ندھی ترپاٹھی کو 1042 ووٹ حاصل ہوئے۔

گیتا کماری/Getty Images
گیتا کماری/Getty Images

بے اے پی ایس اے (برسا امبیڈکر پھولے اسٹوڈنٹ ایسوسی ایشن )کو تیسرا مقام حاصل ہوا جبکہ اسے لیفٹ کا متبادل قرار دیا جا رہا تھا ۔ بے اے پی ایس اے کی امیدوار شبانہ علی کو 935 ووٹ حاصل ہوئے۔

سہ رخی مقابلےکے دوران سی پی آئی رہنما ڈی راجا کی بیٹی اپراجیتا راجا محض 416 ووٹ ہی حاصل کر سکیں۔ غور طلب ہے کہ اپراجیتا راجا کے انتخابی میدان میں اترنے کا لیفٹ حامیوں نے پسند نہیں کیا تھا ، اس کے باوجود وہ ایک مضبوط امیدوار کے طور پر سامنے آئیں۔

متعدد طلبہ کا خیال تھا کہ صدر انتخاب میں اپراجیتا لیفٹ ووٹوں کو کاٹ کر اے بی وی پی کی جیت کے لئے راہ ہموار کر دیں گی۔ حالانکہ جے این یو طلبہ اس معاملہ میں سمجھدار ثابت ہوئے اور انہوں نے انتشار سے بچتے ہوئے لیفٹ اتحاد کے حق میں ہی ووٹ دئے۔

Getty Images
Getty Images

قیاس آرائیوں کے بر خلاف اے بی وی پی کے ووٹوں میں بھی بکھراؤ دیکھا گیا۔ جے این یو طلبہ یونین کے ایک سابق صدر نے ’قومی آواز‘ کو بتایا کہ لیفٹ اتحاد نے اسکول آف فیزیکل سائنس (ایس پی ایس ) میں بھی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا جسے اے بی وی پی کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا، ’’در اصل اے بی وی پی کے اندر بھی کئی خیمہ موجود تھے جن میں سے کئی نے بغاوت کر کے آفیشل امیدوار کے خلاف انتخاب لڑا ،جس کی وجہ سے ان کے بھی ووٹ منتشر ہوئے ہیں۔‘‘

نائب صدر عہدے پر لیفٹ اتحادی امید وار سیمون زویا خان نے 1876 ووٹ حاصل کئے جبکہ ان کے حریف اے بی وی پی کے درگیش کو 1028 ووٹ ہی مل سکے۔ بی اے پی ایس کے امیدوار سبودھ کمار کو 910 ووٹوں کے ساتھ تیسرا مقام ملا۔

اسی طرح جنرل سیکریٹری اور جوائنٹ سیکریٹری عہدوں پر بھی لیفٹ اتحادی امیدواروں کا ووٹ اشتراک قابل تحسین درج کیا گیا۔ جنرل سیکریٹری عہدے کے لیفٹ اتحادی امیدوار کو 2028 ووٹ حاصل ہوئے جبکہ بی جے پی کے امیدوار 975 ووٹوں کے ساتھ ان سے کافی پیچھے رہ گیا۔

جیسے ہی حتمی نتائج کا اعلان ہوا ،یونیورسٹی میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ لیفٹ رہنماؤں کی طرف سے ایک مارچ نکالنے کے بعد بھر پور جشن منایا گیا۔

جے این یو ایس یو کی سابق صدر کویتا کرشنن نے فتحیاب امیدواروں کی تصویر ٹوئٹر پر شیئر کییں ۔ کویتا نے دیگر ٹوئٹ بھی کئے جن میں انہوں نے جیت کا دعویٰ کرنے والی فیک نیوز(فرضی خبروں ) پوسٹ کرنے پر اے بی وی پی کو آڑے ہاتھوں لیا۔

افضل گورو تنازعہ اور کنہیا کمار کی گرفتاری کو دوسال کا عرضہ گزر جانے کے بعد بھی طلبہ یونین انتخابات کے نتائج کے کئی پہلو ہیں۔

  • جے این یو طلبہ یونین صدر عہدے پر پانچ سالوں کے بعد کوئی خاتون منتخب ہوئی ہے۔
  • اے بی وی پی نے انتخاب کے دوران دوسرا مقام حاصل کیا جو اس بات کو واضح کرتا ہے کہ دائیں بازو نے جے این یو میں اپنا بیس تیار کر لیا ہے۔
  • لیفٹ کا مکمل طور پر اتحاد ابھی تک بھی ایک دور کی کوڑی ہے کیوں کہ سی پی آئی کی طلبہ تنظیم اے آئی ایس ایف الگ سے انتخابی میدان میں اتری۔
  • امبیڈکر حامی طلبہ تنظیمیں مضبوطی کے ساتھ منظر عام پر آئی ہیں جو یونیورسٹی میں صرف اور صرف لیفٹ کے ووٹوں کو کاٹنے کا کام کیا۔
  • تمام لیفٹ، آزاد خیال، ترقی پسند قوتیں ایک ساتھ آئیں تو انتخابات میں دائیں بازو کو آسانی سے شکست دی جا سکتی ہے۔ یہ فارمولہ مین اسٹریم کے سیاسی تناظر میں بھی لاگو کیا جا سکتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔