گائے کاٹنے کی افواہ نے ایک مسلمان کی پھر جان لے لی

اترپردیش میں ایک بارپھرانسانیت شرمسارہوئی اورسینکڑوں لوگوں کی موجودگی میں ایک تڑپتے بیمارانسان کوایک گھونٹ پانی صرف اس لئے نہیں دیا کیونکہ وہ مسلمان تھا۔

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
user

آس محمد کیف

پلکھوا(ہاپوڑ):پورے ملک میں نفرت کی سیاست تباہ کن ہوگئی ہے۔پیرکونفرت کی اسی سیاست نے دادری کے پاس ایک اوردادری کوپیداکردیا۔دادری سے 30کلومیٹردورپلکھواکے بجھیڑاگاؤں میں گئو کشی کی افواہ کے بعدمشتعل ہندونوازوں کی بھیڑنے50سال کے ایک شخص کوپیٹ پیٹ کرماردیا،وہ تڑپتارہا مگر اس کے مذہب کی پہچان بتاکراسے ایک گھونٹ پانی نہیں دیاگیا۔ اس کی جان بچانے آیا62 سالہ ایک کسان بھی زندگی اورموت کی جنگ لڑرہاہے۔ جس کے سبب علاقےمیں فرقہ وارانہ کشیدگی پھیل گئی ہے۔

پلکھوا سے یہ زمینی پورٹ بہت کچھ سوچنے پرمجبورکرتی ہے۔ چارسال بعداس علاقے کی عیدایک بارپھرکالی ہوگئی ہے۔

’’قاسم 50سال سے زیادہ عمرکاتھا،6بچوں کاوالد،85 کلووزن، جوان ہورہی بیٹی کی فکرکرنے والا دماغ اورڈھیلا بدن، بلڈپریشرکامریض، بس اس لئے وہ بھاگ نہیں پایا، موت سے بچ کر، اسے گھیرکرماردیا گیا، ایک بوند پانی کے لئے اسے تڑپایا گیا، جب زندہ تھا توپولس بچانہیں پائی، مرگیا تواس کی قبر پر پی اے سی کا پہرا ہے، یا اللہ یہ کیسی زندگی ہے‘‘ قاسم کے 65 سال کے چچا میہرعلی اپنے دو نوں ہاتھوں سے سرپکڑے پلکھوا کے محلہ صدیق نگرمیں قاسم کے کرائے کے مکان والے گھرکے باہربیٹھے ہیں، وہ جب بولتے ہیں تکلیف ان کے چہرے پرتناؤلے آتی ہے ۔وہ کہتے ہیں’’صرف اس لئے ماردیاکہ وہ مسلمان تھا،گائے کہاں گئی؟اسے کاٹنے کے اوزار کہاں ہیں؟ خون کے نشان کہاں ہیں؟کوئی ثبوت نہیں، صرف افواہ پھیلائی گئی اور6بچوں کویتیم کردیاگیا۔قاسم کے کرائے کے گھرکے باہربیٹھے ایک درجن سے زائدلوگ مکمل خاموش ہیں،چپ ہیں!یہاں کوئی اب تک سمجھ نہیں پارہاہے کہ یہ ہواکیاہے؟۔

دہلی سے50کلومیٹردورپلکھوا،ضلع ہاپوڑکاقصبہ ہے۔یہ قصبہ پہلے میرٹھ ضلع کے تحت آتاتھاجسے بعدمیں غازی آبادکاحصہ بنادیاگیاپھرپنچ شیل نگرکے نئے نام کے ساتھ پلکھواکواس نئے ضلع میں جوڑدیاگیا۔دہلی سے نینی تال جاتے ہوئے سڑک کنارے جہاں کہیں بھی آپ کوبڑی تعدادمیں تولیہ فروخت ہوتے دکھائی دیں توسمجھ لیجئے یہی وہ جگہ ہے جہاں ایک بارپھرانسانیت شرمسارہوئی اورسینکڑوں لوگوں کی موجودگی میں ایک تڑپتے بیمارانسان کوایک گھونٹ پانی بھی نہیں دیاگیا۔

اسی سڑک کنارے بجھیڑانام کاوہ گاؤں ہے جہاں قاسم کوڈھور(پالتوجانور)کی اطلاع کے ساتھ بلایاگیاتھا۔اسی گاؤں میں قاسم کاقتل ہوا۔ہمیں قاسم کابھائی محمدسلیم(35)بتاتاہے’’میرے بھائی گاؤں سے بکری کے بچے خریدکرشہرمیں بیچتے تھا۔یہی ان کے خاندان کا ذریعہ معاش تھا ، وہ 23سال پہلے اپنے پشتینی گاؤں تاڑی سے یہاں چلے آئے تھے۔ پلکھوا میں ان کی سسرال ہے۔بجھیڑاگاؤں کاکوئی آدمی ان سے ملاتھاجس نے انہیں گاؤں میں اپنی بھینس بیچنے کے لئے بلایاتھا۔عیدکی وجہ سے وہ فوری طورپرنہیں جاسکے، اس لئے وہ کل گئے تھے۔لیکن گھرپرپولس ان کی لاش لے کرآئی۔بہادرقوم ہونے کادعویٰ کرنے والے شوریہ ویروں(بہادروں)نے ایک بوڑھے اوراپنے بچے کاپیٹ پالنے کے لئے روزی تلاشنے گئے ایک نہتے آدمی کوگھیرکرماردیا۔پیرکی دوپہر3بجے پولس نے گھرفون کرکے بتایاکہ قاسم کے ساتھ جھگڑاہواہے،انہیں رامااسپتال لے جایاگیا، جب ہم وہاں پہنچے تووہ ہمیں زندہ نہیں ملے۔

چاربھائیوں والے قاسم کے ایک اوربھائی محمدشائق(45)کے مطابق’’وہ وہیں مرچکے تھے،آپ ویڈیومیں دیکھئے کیسے تڑپ رہے ہیں جیسے بغیرپانی کے مچھلی تڑپتی ہے۔کیا50سال کاڈھیلے بدن والااکیلاآدمی گائے کاٹ سکتاہے؟ پھرگائے کہاں ہے؟ جھوٹی افواہ پھیلاکرصرف یہ فسادکرانے کی نیت سے کی گئی منصوبہ بندسازش کاحصہ ہے۔‘‘

قاسم کے ساتھ ایک اوردوسرے شخص سمے دین بھی زخمی ہوئے ہیں۔انہیں ہاپوڑکے دیوی نندنی اسپتال میں بھرتی کرایاگیاہے۔اتفاق یہ ہے کہ ان کی بھی عمر60سے زیادہ ہے۔پلکھواتھانہ میں اس واردات کی رپورٹ درج کرانے والے سمے دین کے بھائی یامین کہتے ہیں’’ کہانی یہ بنائی گئی ہے کہ ایک بیماراورایک بوڑھاآدمی دونوں مل کرگائے کاٹ رہے تھے جب کہ نہ ان کے پاس چھری تھی اورنہ ہی وہاں گائے تھی۔بات صرف اتنی ہے کہ گائے کے نام پر فسادکرانے کے لئے انہیں قتل کیا گیاہے۔‘‘

سمے دین(62)مدے پورکے رہنے والے ہیں۔یہ مدے پورگاؤں جائے ورادات والے بجھیڑاگاؤں کے کافی قریب ہے۔دونوں گاؤں کے کھیت کھلیان ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں۔دونوں گاؤں راجپوتوں کے ہیں۔مدے پور میں مسلم راجپوت رہتے ہیں۔ بجھیڑا ہندو راجپوت اکثریتی گاؤں ہے۔ان میں غلبے کی لڑائی اکثر ہوتی رہتی ہے،یہاں اکثرفرقہ وارانہ کشیدگی ہوتی رہتی ہے یہی وجہ ہے کہ دونوں گاؤں میں نفرتیں کافی حدتک بڑھ گئی ہیں۔جس وقت بھیڑگئوکشی کی افواہ پرقاسم کوپیٹ رہی تھی،توسمے دین اپنے کھیت پرکام کررہے تھے۔انہوں نے ہمت کرتے ہوئے قاسم کوبچانے کی کوشش کی، جس کے بعدان کی بھی پٹائی کردی گئی، جس سے وہ بیہوش ہوگئے۔فی الحال وہ خطرے سے باہرہیں۔

پلکھوا میں پچھلے کچھ سالوں سے آپسی تعلقات میں کافی تلخی آئی ہے۔مقامی باشندےمحمدشاہین بتاتے ہیں کہ’’علاقے کے حالات 2017کے اسمبلی انتخابات کے بعدخراب ہوئے۔دراصل اس انتخاب میں دھولانااسمبلی سے پانچ بارکے رکن پارلیمنٹ رمیش چندرتومرنے الیکشن لڑاتھاجنہیں بی ایس پی کے اسلم انصاری نے ہرادیا۔جب کہ یہاں یوگی آدتیہ ناتھ اورامت شاہ نے ا س الیکشن کو’’مولانابنام دھولانا‘‘کی ڈگری دے کرفرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی تھی۔اس کے بعدسے ہی رشتوں میں تلخی ہے حالانکہ یہ عام لوگوں میں نہیں ہے۔مگرسیاسی کارکنوں میں ضرورہے۔

اس بات سے قاسم کے خاندان والے بھی متفق ہیں۔قاسم کے سب سے بڑے بیٹے مہتاب(24)بجھیڑاکے بی جے پی سے وابستہ لیڈرکرن پال کے خلاف کارروائی کرنے کی بات کہتے ہیں۔کرن پال قاسم کی موت سے عین قبل ایک ویڈیومیں قاسم سے بات کررہاہے،تبھی بھیڑویڈیوبنانے والے نوجوان کے پیچھے دوڑتی ہے۔بجھیڑاگاؤں میں کرن پال کاکافی دبدبہ ہے اوراس کی کئی بی جے پی لیڈروں سے قربت بھی ہے۔ مقامی پلکھواتھانے میں بھی اس کی پکڑبتائی جاتی ہے۔

حالانکہ اس کانام مقدمے میں نہیں ہے۔ہاپوڑکے ایس پی سنکلپ شرمانے بتایاکہ سمے دین کے بھائی یامین کی جانب سے 5نامعلوم لوگوں کے خلاف رپورٹ درج کرائی گئی ہے جس کی بنیادپرپولس نے راکیش اوریدھشٹرکی اب تک گرفتاری کی ہے۔باقی گرفتاریوں کے لئے پولس کوشش کررہی ہے۔کرن پال کے رول کی بھی جانچ کی جارہی ہے۔ایس پی کے مطابق موقع پرگائے کاٹے جانے کولے کرکوی ثبوت نہیں ملے ہیں۔گئوکشی کی صرف افواہ پھیلائی گئی۔اس واردات کولے حالات کشیدہ ہوگئے ہیں۔مقامی لوگ مان رہے ہیں کہ یہ واردات عام واردات نہیں ہے۔

سماجوادی پارٹی کے لیڈرمحمدغفارمدے پوراوربجھیڑاگاؤں کے درمیان والے گاؤں دہرا میں رہتے ہیں۔وہ اپنی معلومات سے اس سازش سے پردہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔وہ بتاتے ہیں کہ’’بجھیڑاگاؤں سے شہرجانے کاراستہ مدے پوراوردہراسے ہوکرگزرتاہے۔دہرامیں فیکٹری ہونے کے سبب بجھیڑاکے سینکڑوں لڑکے یہاں کام کرتے ہیں۔مگراس دن زیادہ ترلڑکے چھٹی پررہے اوردونوں مواضعات سے نکل کربجھیڑاکے لوگ پلکھواکم گئے۔یہ واردات 3بجے ہوئی جب کہ بجھیڑاکے لوگوں نے صبح سے ہی گاؤں سے باہرآنا جانا بندکردیاتھا، ظاہرہے اندرکچھ چل رہاتھا، مقامی ممبراسمبلی اسلم چودھری کہتے ہیں کہ’’جلدہی اس سازش کاپردہ فاش ہوجائے گا۔یہاں امن پسندلوگ زیادہ ہیں اورہندوبرادران نے بھی شدت سے اس واردات کی مذمت کی ہے‘‘۔

قاسم قریشی کی بڑی ہورہی بیٹی نشا(17)اپنے گھرکے دروازے پراداس کھڑی ہے۔تین دن پہلے کی عیدماتم میں بدل گئی ہے۔شارق ہمیں بتاتے ہیں کہ’’قاسم جووان بیٹی کو دیکھ کرپریشان رہتاتھا،وہ جتناکماتاتھا سب خرچ ہوجاتا تھا،بیٹی کی شادی کی فکراسے لگاتارستارہی تھی۔بڑابیٹاشادی کے بعدالگ ہوگیاتھا، روتے ہوئے نشاکہہ رہی تھی ’’ابوعیدپرخودنئے کپڑے نہیں بناتے تھے مگرہمیں ضروردلاتے تھے،وہ پرانے کپڑے دھلاکرپہن لیتے تھے،انہیں بھی کئی دن تک پہنے رہتے تھے۔اب ہرعیدپروہ بہت یادآئیں گے۔ہماری عیدہمیشہ کے لئے خراب ہوگئی‘‘۔

یہیں پاس کے دادری میں فرج میں گائے کاگوشت ہونے کی افواہ میں 4 سال پہلے اخلاق کوپیٹ پیٹ کر ماردیا گیاتھا۔ اخلاق کے قتل کے جرم میں جیل گئے لڑکے پلکھوا میں بھی گھومتے ہیں۔دادری اورپلکھواپاس پاس ہی ہیں۔

قاسم کابیٹامہتاب انصاف کا مطالبہ کررہاہے مگرنظام ایساہے کہ بجھیڑاکے لڑکے بھی کچھ وقت بعددادری میں گھومتے نظرآئیں گے‘‘۔

قاسم کے 6بچوں میں چارایسے ہیں جنہیں یہ تک نہیں معلوم کہ ابوکہاں چلے گئے۔

اس واقعہ کے بعد مدے پوراوربجھیڑامیں زبردست کشیدگی ہے ۔یہاں پولس نے اپنی پوری طاقت جھونک دی ہے ۔ابھی تک تو سب پرامن ہے مگرہمیشہ اس کے رہنے کی امیدنہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 20 Jun 2018, 12:04 PM