شملہ: مبینہ گئو کشی کے نام پر شرپسندوں کا وبال، مسلمانوں کی دکانوں میں توڑ پھوڑ

شملہ کی تحصیل روہرو میں ارہال روڈ پر واقع ایک عمارت سے کسی جانور کا کٹا ہوا سر ملنے کے بعد ہندو گروپوں نے مظاہرہ کرنا شروع کر دیا اور وہاں پرموجود مسلمانوں کی دکانوں میں توڑ پھوڑ کی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

کسی جانور کی باقیات برآمد ہونا، شرپسندوں کاانہیں گائے کی باقیات قرار دینا اور گئو کشی کا الزام مسلمانوں پر عائد کرنا آر ایس ایس ، بی جے پی اور دیگر سخت گیر ہندو تنظیموں کا یہ حربہ اب عام ہو چلا ہے۔ تازہ معاملہ ہماچل پردیش کا ہے جہاں کے شملہ ضلع میں ہندو شرپسندوں نے کسی جانور کا کٹا ہوا سر ملنے کے بعد ہنگامہ آرائی کی۔

روہرو تحصیل میں ہنگامہ کرنے والے سخت گیر ہندوؤں کا الزام ہے کہ کٹا ہوا سر گائے کا ہے۔ شرپسندوں نے مسلمانوں پر گائے کے قتل کا الزام عائد کیا اور مسلمانوں کی کئی دکانوں میں توڑ پھوڑ کی۔

میڈیا رپورٹوں کے مطابق شملہ کی تحصیل روہرو میں ارہال روڈ پر واقع ایک عمارت سے کسی جانور کا کٹا ہوا سر ملنے کے بعد ہندو گروپوں نے مظاہرہ کرنا شروع کر دیا اور وہاں پرموجود مسلمانوں کی دکانوں میں توڑ پھوڑ کی۔

شملہ کے ایس پی پرمود شکلا نے کہا، ’’حالات کشیدہ لیکن قابو میں ہیں۔ گئو کشی کے معاملہ میں کسی کو قصور وار پایا جاتا ہے تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ ‘‘ پولس کا کہنا ہے کہ ہنگامہ کرنے والے لوگوں کو گئو کشی کے معاملہ میں کارروائی کی یقین دہائی کرا کر مطمئن کر دیا گیا ہے۔ پولس کا کہنا ہے کہ کٹا ہوا سر بچھڑے کا ہے یا نہیں یہ فارینسک جانچ کرنے والی ٹیم طے کرے گی۔ حالانکہ پولس نے اس معاملہ میں ایف آئی آر درج کر لی ہے۔ پولس نے ایک مقامی رہائشی کا بیان بھی درج کیا ہے۔ بیان کے مطابق اس رہائشی کو کسی دوسرے شخص نے بتایا تھا کہ شکتی رانا بلڈنگ کے پاس کسی نے بچھڑے کا کٹا ہوا سر پھینکا ہوا ہے۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق پولس نے ان لوگوں کے خلاف بھی معاملہ درج کر لیا ہے جنہوں نے دکانوں میں توڑ پھوڑ کی۔

واضح رہے اسی مہینے کی شروعات میں بلند شہر کے سیانہ علاقہ میں بھی مبینہ گئو کشی کو لے کر ہندو شرپسندوں نے وبال کھڑا کر دیا تھا۔ خاص بات یہ ہے کہ جس وقت فساد بھڑکانے کی کوشش کی گئی اس وقت بلند شہر میں لاکھوں مسلمان اجتماع میں موجود تھے ۔ شرپسند فساد بھڑکانے کے اپنے منصوبے میں تو کامیاب نہیں ہو پائے لیکن سیانہ کے بہادر انسپکٹر سبودھ کمار سنگھ کو اس کا خمیازہ اپنی جان دے کر چکانا پڑا تھا۔ غور طلب ہے کہ ابھی تک یہ بھی طے نہیں ہو پایا ہے کہ سیانہ میں گئو کشی ہوئی بھی تھی یا نہیں۔ کیوں کہ پولس نے بعد میں کئی ایسے لوگوں کو گرفتار کیا جن پر شکار کرنے کا الزام ہے۔ معاملہ شکار کا تھا یا پھر گئو کشی کا پولس اس بات کو صاف کرنے سے قاصر ہے ا ور صرف اور صرف مسلمانوں کو جھوٹے سچے الزام لگاکر پھنسایا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں : اتر پردیش میں پولس پر گائے کو زندہ دفن کرنے کا الزام، حکومت کے خلاف ہوئی نعرہ بازی

ادھر علی گڑھ کے کھیر اگلاس میں گائیوں کو قتل کرنے کا ایک عجیب و غریب معاملہ سامنے آیا ہے۔ الزام ہے کہ وہاں پر پولس کی نگرانی میں گائیوں کو زندہ دفن کر کے قتل کیا گیا ہے۔ اس معاملہ پر علی گڑھ سے کانگریس کے ضلع صدر چودھری برجیش سنگھ نے سیدھے طور پر مودی اور یوگی کو ذمہ دار قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہ مودی اور یوگی کی پالیسوں کی وجہ سے کھیر اگلاس میں گائیوں کو بے رحمی سے قتل کیا گیا اور کسانوں بھی سخت غم و غصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت نے گائے اور اس کی نسل کے کھانے پینے رہنے کا مناسب انتظام کیا ہوتا تو آج گائیوں کا یہ حال نہ ہوا ہوتا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 28 Dec 2018, 5:10 PM