جے این یو کی جنرل باڈی میٹنگ میں ہنگامہ، دو طلبا گروپوں میں جھڑپ

بائیں بازوں سے وابستہ تنظیموں نے سنگین الزامات لگاتے ہوئے کہا ہے کہ بی جے پی کی طلبا شاخ اے بی وی پی کے ارکان نے جنرل باڈی میٹنگ کو پُرتشدد بنایا

<div class="paragraphs"><p>جے این یو کیمپس / سوشل میڈیا</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) ایک بار پھر تشدد اور الزامات کی زد میں ہے۔ بدھ کے روز یونیورسٹی کے اسکول آف سوشل سائنسز میں ہوئی جنرل باڈی کی میٹنگ کے دوران دو طلبہ گروپوں میں شدید جھڑپ ہو گئی۔ اطلاعات کے مطابق اس جھڑپ میں کئی طلبا زخمی ہو گئے، جس میں طالبات بھی شامل ہیں۔ ایس ایف آئی اور اے آئی ایس اے جو بائیں بازوں سے وابستہ تنظیمیں ہیں، نے سنگین الزامات لگاتے ہوئے کہا ہے کہ بی جے پی کی طلبا شاخ اے بی وی پی کے ارکان نے جنرل باڈی میٹنگ کو پُرتشدد بنایا۔

اس دوران چاروں طرف سے گھرنے کے بعد اے بی وی پی نے دعویٰ کیا کہ بائیں بازو کے ایک کونسلر کے قابل اعتراض تبصرے کے بعد جھڑپ شروع ہوئی۔ جس نے اتر پردیش اور بہار کے طلباء کے بارے میں توہین آمیز تبصرہ کیا تھا۔ اس طرح دونوں طلبہ گروپ تشدد کے لیے ایک دوسرے پر الزام لگا رہے ہیں۔ حالانکہ خبر یہ بھی ہے کہ اے بی وی پی نے میٹنگ میں ہنگامہ کرنے اور طلبا کو تشدد پر اکسانے کے لیے اس طرح کا منصوبہ بنایا تھا۔


ایسی خبروں کے درمیان اے بی وی پی طلبہ تنظیم کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ جے این یو کے اسکول آف سوشل سائنسز میں جنرل باڈی میٹنگ ہوئی، جس کے دوران بائیں بازو کے گروپ سے وابستہ ایک کونسلر نے انتہائی قابل اعتراض تبصرہ کیا۔ یہ الزام لگایا گیا ہے کہ کونسلر نے میٹنگ میں اتر پردیش اور بہار کے طلباء اور اے بی وی پی سے وابستہ افراد کی توہین کی۔ بحرحال میٹنگ میں ہنگامہ کے بعد جی بی ایم میں ماحول کشیدہ ہو گیا۔

اس دوران کہا جا رہا ہے کہ اے بی وی پی کے حامیوں نے بائیں بازو کی طلبا تنظیموں کے خلاف ہنگامہ تو کیا دیگر ناراض طلبا سے ان کی کہا سنی ہو گئی جس کے بعد طلبا آپس میں متصادم ہو گئے۔ اس جھڑپ میں طالبات سمیت کئی طلباء زخمی ہوئے ہیں۔ اے بی وی پی سے وابستہ جے این یو اسٹوڈنٹس یونین کے جوائنٹ سکریٹری ویبھو مینا نے کہا کہ اختلاف رائے ہونا فطری ہے لیکن اختلاف کے جواب میں تشدد اور علاقائی منافرت پھیلانا جمہوریت کے خلاف ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔