25سال بعد اب ملک پر ’ہندوتوا‘ نہیں ’مودی توا‘ حاوی ہے

بابری مسجد انہدام کے پورے 25سال گزرنے کے بعد ہندوتواکا چہرا پوری طرح بدل چکا ہے۔ اب ’ہندوتوا‘ کی جگہ ’مود ی توا ‘نے لے لی ہے اور یہ’ مودی توا ‘وہ ہے جوغلطی پرشرمندہ نہیں ہوتااورجارحیت برقرار رکھتا ہے۔

تصویر نوجیون
تصویر نوجیون
user

سرور احمد

بابری مسجد کی انہدامی کے پورے 25سال گزرنے کے بعد ہندوتو اکا چہرا پوری طرح بدل چکا ہے۔ اب ’ہندوتوا‘ کی جگہ ’مود ی توا ‘نے لے لی ہے اور یہ’ مودی توا ‘وہ ہے جو کسی بھی اپنی غلطی پر شرمندہ نہیں ہوتا اور جارحیت برقرار رکھتا ہے۔

6دسمبر1992،یہ وہ دن تھا جب ’ہندوتوا‘ تحریک اپنے عروج پرتھی اور اسی دن بابری مسجد کو مسمارکر دیا گیا تھا۔ اب25سال گزر چکے ہیں اور اب’ہندوتوا‘کی جگہ ملک میں ’مودی توا‘ سر اٹھائے کھڑا ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ ان دونوں نظریوں میں آخر فرق کیا ہے۔

لال کرشن اڈوانی کی قیادت میں بی جے پی نے 1980کی دہائی میں’ ہندوتوا‘ کو اپنایا۔ اس کی شروعات اس وقت ہوئی جب بی جے پی اپوزیشن میں تھی اور عوام میں اس کی کوئی خاص پکڑ نہیں تھی۔

اڈوانی نے 25ستمبر 1990کو سومناتھ سے ایودھیا تک کی رتھ یاترا شروع کی لیکن اس رتھ یاترا کو بہار کی اس وقت کی لالو پرساد یادوحکومت نے 23اکتوبر کو روک دیا تھا۔ ساتھ ہی اڈوانی کو گرفتار بھی کر لیا تھا۔ دو سال بعد اڈوانی ہندو جذبات کو اکسانے میں کامیاب رہے اور 6دسمبر1992 کو بابری مسجد گرا دی گئی۔

بابری مسجد انہدام کے بعد پورے ملک میں فرقہ وارانہ فساد بھڑک اٹھے۔ ممبئی اور سورت میں ان دنگوں کی شکل انتہائی خوفناک تھی۔ ان دنگوں کے فوراً بعد 12مارچ 1993کو ممبئی سیریل بم دھماکوں سے پوری طرح دہل اٹھا، جس میں کم از کم 250افراد کی جان گئی۔ یہ پہلا موقع تھا جب ملک میں اس قسم کا دہشت گردانہ واقعہ ہوا تھا۔ اس سے قبل خالصتانی اور کشمیری دہشت گردی کے واقعات رونما ہوئے تھے لیکن اس کا مرکز علیحدگی پسندگی کی جانب رہتا تھا۔

بابری مسجد انہدام کے 6سال بعد جب بی جے پی مرکز میں اقتدار میں آئی تب تک وہ ایک الگ پارٹی بن چکی تھی۔ اس نے نرم ہندوتو ااپنانا شروع کر دیا تھا۔ کسی کسی معاملے میں تو یہ کانگریس سے بھی زیادہ نرم نظر آئی۔ ایودھیا تحریک اور رتھ یاترا پر سوار ہوکر اقتدار کے عروج پر پہنچنے کے با وجود لال کرشن اڈوانی نہیں، بلکہ اٹل بہاری واجپئی وزیر اعظم بنے۔ واجپئی کی قیادت میں این ڈی اے کی شکل میں ایک مضبوط اتحاد قائم ہوا۔ 1996اور1998میں ایچ ڈی دیو گوڑا اور اندر کمار گجرال کی حکومتوں میں ملک میں سیاسی غیر یقینی کی صورتحال کے بعد پہلی مرتبہ ایک مستحکم حکومت نظر آئی۔

یہ وہ وقت تھا جب ایک طرف واجپئی دور اپنے عروج پر تھا اور’ مودی توا‘ دور کی ابتدا ہوتی نظر آ رہی تھی۔ اس کی جڑیں فروری۔مارچ 2002کے گجرات دنگوں سے نکلتی نظرا ٓئی ۔ ان دنگوں کے بعد واجپئی نے گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی کو ’راج دھرم‘ کی یاد دلائی تھی۔

اس طرح نظریوں کے طور پر ’ہندوتوا‘ کا استعمال 1988سے 1998کے درمیان ہوا۔ لیکن مرکز میں اقتدار میں رہتے ہوئے بی جے پی کافی نرم ہو چکی تھی۔ موٹے طور پر کہا جا سکتا ہے کہ بی جے پی اقتدار سے باہر ہوتی تھی تو سخت ہندوتو اکو اپناتی تھی لیکن اقتدار میں آتے ہی اس کا رخ نرم ہو جاتا تھا اور وہ ایک ذمہ دار سرکار کی طرح برتاؤ کرتی تھی۔

لیکن ’مودی توا‘ ایک الگ قسم کا نظریہ ہے۔ اس میں رخ کے بدلاؤ کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ اس نظریہ میں بی جے پی صرف حزب اختلاف میں رہتے ہوئے ہی سخت گیر ہندوتو انہیں اپناتی بلکہ اقتدار میں رہتے ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کو بڑھاوا دیتی ہے۔ اتنا ہی کافی نہیں ہے۔ واجپئی دور کے خلاف جہاں ’راج دھرم‘ کی بات کی جاتی تھی، ’مودی توا‘ کے بھکت اپنی کسی حرکت پر شرمندہ نہیں ہوتے۔وہ اپنے غلط کاموں پر فخر محسوس کرتے ہیں۔

دراصل 2004میں این ڈی اے کی شکست کی ایک وجہ ’ہندوتوا‘ اور’ مودی توا‘ کے درمیان فاصلہ بھی تھا۔ واجپئی کا ’ہندوتوا‘ 4جون 2005کو اور کمزور ہوتا نظر آیا جب پارٹی کے پوسٹر بوائے لال کرشن اڈوانی نے پاکستان میں محمد علی جنا ح کے مزار پر حاضری کے بعد جناح کو سیکولر کہا۔ جبکہ دو دن پہلے ہی یہ کہا تھا کہ تقسیم ،ایک ٹالی نہ جانے والی تاریخی سچائی ہے۔

سنگھ پریوار اڈوانی کے اس بیان سے سکتے میں آ گیا۔ بی جے پی کے تمام رہنما بھی حیرت زدہ رہ گئے۔ کیونکہ اقتدار سے باہر رہتے ہوئے تو بی جے پی سخت گیر اور جارحانہ رخ اختیار کرتی رہی تھی لیکن اڈوانی کے بیان سے اس میں کمزوری آ رہی تھی۔ اور یہیں سے ’مودی توا‘ کو مضبوطی ملنی شروع ہوئی۔

بھلے ہی اڈوانی نے حال کے سالوں میں سب سے بڑی تحریک کی قیادت کی تھی لیکن’ ہندوتوا‘اپنی دھار کھونے لگا تھا۔ منڈل کمیشن کی سفارشوں کے لاگو ہونے سے مندر تحریک بھی کمزور پڑ نےلگی تھی۔ خاص طور سے شمالی ہندوستان میں جیسے بہار اور اتر پردیش میں یہ تحریک اپنی چمک کھونے لگی تھی۔

ایک چوتھائی صدی ختم ہونے پر ’مودی توا‘ سے نکلی قووتیں کم از کم آج تو بہت زیادہ مضبوط اور اعتماد سے بھری نطر آرہی ہیں۔ ان قووتوں نے اب مارگ درشک منڈل میں آ رام کر رہے ہندوتوا کے مہا رتھیوں کی غلطیوں سے اچھا سبق سیکھ لیاہے۔

اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہیہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 06 Dec 2017, 11:39 AM