سنگھ کوہتھیاروں کے لئے لائسنس کی ضرورت نہیں!

سوال یہ ہے کہ اگر اسی طرح سر عام ہتھیاروں کی نمائش آر ایس ایس کے بجائے کوئی اور تنظیم کرے تو کیا اس وقت بھی پولس کا رویہ یہی ہوگا؟

تصویر سوشل میدیا
تصویر سوشل میدیا
user

وشو دیپک

ہر سال دشہرے کے موقع پر ہتھیاروں کی پوجا کرتے ہوئے آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کی تصاویر آپ میں سے زیادہ تر لوگوں نے دیکھی ہوگی۔ دشہرہ کے موقع پر ہی تلوار، بندوق، بھالا اور کئی خطرناک اور جدید ہتھیاروں کی پوجا کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی کی تصاویر بھی میڈیا میں خاص طور سے شائع کی جاتی رہی ہیں۔ کندھے پر بندوق تانے ہزاروں سوئم سیوکوں کی تصاویریں بھی آپ نے کبھی نہ کبھی ضرور دیکھی ہوں گی۔

یہ کس کو معلوم نہیں ہے کہ آر ایس ایس کے پاس ہتھیاروں کا ذخیرہ ہے جس میں ہر طرح کے ہتھیار شامل ہیں لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ناگپور(جہاں پر سنگھ کا صدر دفتر ہے) پولس کو یہ نہیں پتہ کہ سنگھ کی ہتھیار پوجا میں دکھنے والےہتھیاروں کا لائسنس کس کے پاس ہے؟ ان کا لائسنس لیا بھی گیا ہے یا نہیں؟

نہ صرف یہ بلکہ ناگپور پولس اس بات سے بھی بے خبر ہے کہ آر ایس ایس کے ہتھیاروں کی پوجا میں نظر آنے والی بندوقوں اور تلواروں کی سر عام نمائش کے لئے آر ایس ایس کی جانب سے کسی سے اجازت لی جاتی ہے یا نہیں۔

سنگھ کوہتھیاروں کے لئے لائسنس کی ضرورت نہیں!

ان حقائق کا انکشاف حق اطلاعات قانون-2005 کی اس درخواست کے بعد ہوا ہے جسے اگست 2017 میں ناگپور پولس کمشنر کے صدر دفتر میں داخل کیا گیا تھا۔

درخواست گزار موہنیش جبلپورے کہتے ہیں کہ درخواست پیش کرنے کے بعد پولس کی طرف سے جو جواب انہیں موصول ہوا وہ حیران کن ہے۔ جبل پورے خود بھی ناگپور کے ہی رہائشی ہیں اور ان کا گھر آر ایس ایس ہیڈکوارٹر سے زیادہ دور نہیں ہے۔ موہنیش کا دعوی ہے کہ وہ آر ایس ایس کےہتھیاروں کی پوجا کو بچپن سے دیکھتے چلے آ رہے ہیں۔

’قومی آواز‘ کے ساتھ بات چیت کے دوران موہنیش نے کہا کہ ’’ہر سال ملک بھرسے آنے والے ہزاروں افراد ریشم باغ میدان محل میں کی جانے والی ہتھیار وں کی پوجا میں شامل ہوتے ہیں۔ آر ایس ایس سربراہ کی پوجا کے بعد عام لوگوں کو اسلحوں کی پوجا کرنے کا موقع دیا جاتا ہے اور یہ تقریب دن بھر چلتی ہے۔ ‘‘ غور طلب ہے کہ ریشم باغ میدان محل سے آر ایس ایس ہیڈکوارٹر کا فاصلہ دو کلو میٹر سے زیادہ کانہیں ہے۔

جبلپورے نے اگست 2017 میں داخل کی گئی اپنی درخواست میں ناگپور پولس سے دریافت کیا تھا ’’دشہرے کے روز آر ایس ایس کی جانب سے ہتھیار وں کی پوجا ہوتی ہے۔ ان ہتھیاروں کا لائسنس کس کے نام سے جاری کیا ہے؟ انتخابات کے وقت پولس ہر قسم کے اسلحہ اور ہتھیاروں کو اپنے قبضے میں لے لیتی ہے، تو کیا آر ایس ایس کے ہتھیاروں کو بھی کہیں جمع کرایا جا تا ہے؟ اگر ہاں، تو اس حوالہ سے اطلاع دی جائے۔‘‘

ناگپور پولس نے اس کا جواب اکتوبر 2017 کو دیا ۔ پولس کی طرف سے لکھا گیا ’’آپ نے جو اطلاع مانگی ہیں اس طرح کے ہتھیاروں کے لائسنس سے متعلق کسی بھی قسم کی معلومات ہمارے ریکارڈ میں درج نہیں ہیں ۔‘‘

ناگپور پولس نے آر ایس ایس کے ہتھیاروں سے متعلق اطلاع حاصل کرنے کے لئے داخل کی گئی درخواست کا جواب دینے میں ایک ماہ سے زیادہ کا وقت لیا۔ یہ تاخیر حیرت انگیز ہے کیوں کہ حق اطلاعات قانون- 2005 کے مطابق یہ لازمی ہے کہ کسی بھی سوال کا جواب ایک مہینے کے اندر دینا ضروی ہے۔

سنگھ کوہتھیاروں کے لئے لائسنس کی ضرورت نہیں!
آر ٹی آئی کی کاپی

سال 2017 کے اکتوبر مہینے میں جبلپور ے نے حق اطلاعات قانون کے تحت دوسری درخواست داخل کی جس میں انہوں نے ناگپور پولس سے شہر بھر میں لگنے والی آر ایس ایس شاکھاؤں کے تعلق سے معلومات مانگی۔

جبل پورے نے اپنی درخواست میں پوچھا ’’آر ایس ایس شاکھاؤں میں لوگ ایک جگہ جمع ہوتے ہیں۔ اس کے لئے کیا کوئی اجازت دی جاتی ہے؟ اگر ہاں، تو اس کی ایک کاپی فراہم کی جائے۔‘‘

آرٹی آئی کی اس دوسری درخواست میں بھی ناگپور پولس کی طرف سے دیا گیا جواب حیران کر دینے والا تھا۔ جواب میں کہا گیا کہ جن شاکھاؤں میں لاٹھی چلانے سے لے کر، نشانے بازی اور ہتھیار چلانے کی تربیت دی جاتی ہے اس کے لئے آر ایس ایس کے سوئم سویک پولس سے کوئی اجازت نہیں لیتے۔

سوال یہ ہے کہ اگر یہی کام کسی دوسری تنظیم کے لوگوں کی طرف سے کیا جائے تو کیا اس وقت بھی پولس کا رویہ یہی ہوگا ؟

سنگھ کوہتھیاروں کے لئے لائسنس کی ضرورت نہیں!

حق اطلاعات قانون - 2005 کے تحت داخل کی گئی پہلی درخواست دائر کرنے کے بعد جبلپورے نے ستمبر 2017 کو ناگپور کے پولس کمشنر کے خلاف شکایت درج کرائی اور آر ایس ایس کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ 27 ستمبر 2017 کو درج کردہ تحریری شکایت میں جبلپورے نے پولس سے مطالبہ کیا کہ آر ایس ایس کی پوجا کے لئے لائے گئے سبھی ہتھیاروں کو فوری طور پر ضبط لر لیا جائے۔

آر ایس ایس پر پابندی لگانے کا مطالبہ کرتے ہوئے جبلپورے نے جو شکایت پولس کو دی وہ بنیادی طور پر تین نکات پر مبنی تھی:

  • آر ایس ایس کی جانب سے ہندوستان بھر میں چھوٹے بچوں کو ہتھیاروں کی تربیت دی جاتی ہے جو کہ غیر قانونی ہے۔
  • حکومت کی اجازت کے بغیر آر ایس ایس کے سوئم سیوک ہتھیاروں کے ساتھ مارچ نکالتے (پتھ سنچالن) ہیں جو کہ قانون کی خلاف ورزی ہے۔
  • آر ایس ایس کے ہتھیاروں کی پوجا میں جو وزراء یا سرکاری افسران شامل ہوتے ہیں ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔

موہنیش جبلپورے نے نہ صرف ناگپور پولس کمشنر کے دفتر بلکہ کوتوالی پولس تھانہ میں بھی شکایت درج کرائی ، لیکن کہیں بھی کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ آر ایس ایس کا صدر دفتر تھانا کوتوالی کے تحت ہی آتاہے۔

موہنیش کا دعویٰ ہے کہ پولس کمشنر کے دفتر سے آر ایس ایس کے حوالہ سے معلومات مانگنے کے بعد سے ان کے پاس دھمکی بھرے فون آنے لگیں۔

اس سلسلے میں انہوں نے 5 اکتوبر 2017 کو پولس کمشنر کے دفتر میں ایک تحریری شکایت درج کرائی۔ شکایت میں جبلپورے نے موبائل نمبر 7972557102 سے دھمکی ملنے کا الزام عائد کیا اور کہا کہ خود ناگپور پولس نے انہیں آر ایس ایس کے خلاف آواز نہ اٹھانے کی نصیحت دی۔

اپنی شکایت میں جبلپورے نے کہا کہ کسی ’یادو‘نامی شخص نے فون کال کی تھی اور تھانے میں بلاکر پولس نے دھمکی آمیز انداز میں کہا ’’تمہاری شکایت پر کچھ بھی نہیں ہوگا۔ تمہاری محنت اور وقت بے کار جائیں گے۔ ہندوستان میں دشہرے کے روز جس طرح لوگ گاڑیوں کی پوجا کرتے ہیں اسی طرح آر ایس ایس کی طرف سے ہتھیاروں کی پوجا ہوتی ہے ، اس میں غلط کیا ہے۔‘‘

صحیح اور غلط کا فیصلہ عدالت میں کیا جاتا ہے، لیکن آر ایس ایس کے تعلق سے سوال اٹھانے والے کی آواز دبانا ، خوفزدہ کرنے کی کوشش اور پولس کا رویہ، ماہرین کی نگاہ میں قانون اور آئین کے خلاف ہے۔

پولس کے رویہ اور آر ایس ایس کی طاقت کا ذکر کرتے ہوئے جب ہم نے موہنیش سے پوچھا کہ کیا انہیں موت سے ڈر نہیں لگتا تو فلسفانہ انداز میں انہوں نے جواب دیا ’’کسی دن ہو سکتا ہے کہ آپ کو میرے بارے میں خبر شائع کرنی پڑے کہ ٹرک سے کچل کر یا گولی لگنے سے آر ٹی آئی کرکن موہنیش جبلپورے کی موت ہو گئی۔ لیکن میرے سامنے بڑا سوال یہ ہے کہ ڈرنے سے کیا حاصل ہوگا۔ آر ایس ایس ملک اور آئین کے ساتھ جو کھلواڑ کر رہا ہے اس کے خلاف کسی نہ کسی کو تو جد و جہد کرنی ہی ہوگی۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 01 May 2018, 3:56 PM