بھاگوت نے بھی وزیر اعظم کے ’کانگریس مُکت بھارت‘ نعرہ کو جملہ بتایا

آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کا کہنا ہے کہ ’کانگریس مکت بھارت‘ جیسے نعرے سیاسی محاورے ہیں اور یہ آر ایس ایس کی زبان کا حصہ نہیں ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

آر ایس ایس نے بھی اس بات کا اعتراف کر لیا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی جو بھی بولتے ہیں وہ محض نعرہ ہوتا ہے، یا عام زبان میں اسے ’جملہ‘ کہا جا سکتا ہے۔ یہ بات آر ایس ایس کے کسی معمولی رکن نے نہیں بلکہ آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے کہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وزیر اعظم یا بی جے پی ’کانگریس مکت بھارت‘ کی جو بات کرتے ہیں وہ سیاسی جملہ ہے۔

آر ایس ایس موہن بھاگوت نے کہا ہے کہ ’کانگریس مکت بھارت‘ جیسے نعرے سیاسی محاورے ہیں اور یہ آر ایس ایس کی زبان کا حصہ نہیں ۔ گزشتہ اتوار کو پونے میں ایک تقریب میں بھاگوت نے یہ باتیں کہی۔ انھوں نے کہا کہ اس نعرہ کا مقصد کانگریس کو ملک کی ہر ریاست میں اقتدار سے باہر کرنا تھا، نہ کہ ملک سے کانگریس کو ختم کرنا۔ انھوں نے کہا کہ ’’مُکت لفظ سیاست میں استعمال کیا جاتا ہے۔ ہم کسی کو چھانٹنے کی زبان کا کبھی استعمال نہیں کرتے۔‘‘ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’’ہمیں ملک کی تعمیر کے عمل میں سبھی لوگوں کو شامل کرنا ہے، ان لوگوں کو بھی جو ہماری مخالفت کرتے ہیں۔‘‘

موہن بھاگوت کے اس بیان کا کیا مطلب نکالا جائے کہ اس نعرے کو زور و شور سے اٹھانے والے وزیر اعظم کی زبان سے ایک اور ’جملہ‘ ہی نکلا تھا؟ اسی سال فروری میں پارلیمنٹ میں وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ وہ مہاتما گاندھی کے ’کانگریس مکت بھارت‘ کے خواب کی سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں تشہیر کے دوران کئی جلسہ عام میں کالے دھن کا تذکرہ کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ ’’اگر بی جے پی کی حکومت بنی تو ہر ہندوستانی کے اکاؤنٹ میں 15 لاکھ روپے آئیں گے...۔‘‘ لیکن اسی پر جب حکومت بننے کے کچھ وقت بعد بی جے پی سربراہ امت شاہ سے سوال پوچھا گیا تھا کہ آخر 15 لاکھ روپے کا کیا ہوا، تو انھوں نے کہا تھا کہ ’’یہ تو ایک جملہ تھا۔‘‘

اب آر ایس ایس سربراہ اگر اس نعرے کو جملہ بتا رہے ہیں تو ان کی بات تو بی جے پی کے لیے ’سنہرے الفاظ‘ ہوتے ہیں اور اسے سمجھ جانا چاہیے کہ جملوں سے ملک ہی نہیں آر ایس ایس بھی پریشان ہے۔ اتنا ہی نہیں، اتوار کی تقریب میں آر ایس ایس سربراہ نے کچھ ایسی باتیں بھی کہیں جن سے بی جے پی کی تشریح ہوتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’سماج میں بدلاؤ لانے کے لیے مثبت پیش قدمی کی ضرورت ہے، منفی نظریہ والے محض تشدد اور تقسیم کی ہی بات سوچتے ہیں۔‘‘ انھوں نے کہا کہ ایسا شخص ملک کی تعمیر کے عمل میں بالکل بھی کارگر نہیں ہے۔

سیاسی تجزیہ نگار موہن بھاگوت کے اس بیان کو لفظ بہ لفظ قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ سماج کے کئی طبقات کو ناراض کر چکی بی جے پی کے منفی رویہ سے آر ایس ایس کو دقتیں ہو رہی ہوں، لیکن آر ایس ایس خود ہی اس نظریہ پر عمل کرتا رہا ہے۔

ویسے بات جملوں کی ہو رہی ہے تو وزیر اعظم نریندر مودی کے کچھ جملے آپ کو یاد دلا دیتے ہیں۔

اچھے دن آنے والے ہیں: یہ وہ جملہ تھا جس پر بھروسہ کر کے ملک کے لوگوں نے مودی کو وزیر اعظم کی کرسی تک پہنچا دیا۔ لیکن 4 سال بعد بھی اچھے دن آنا تو دور اس کا سایہ بھی کہیں نظر نہیں آ رہا ہے۔ بے روزگاروں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے بعد کاروباریوں کے برے دن شروع ہو گئے ہیں۔ امتحانات میں دھاندلیوں اور پیپر لیک کے ذریعہ ملک کے نوجوان بے حال ہیں۔

وِکاس آئے گا: اس جملے کی حقیقت تو اسی سے معلوم ہوتی ہے کہ وزیر اعظم کے آبائی شہر گجرات میں ہی ’وِکاس گانڈو تھیو چھے‘ یعنی وِکاس پاگل ہو گیا ہے، کے پوسٹر بینر نظر آنے لگے۔

زیرو ڈیفیکٹ اور زیرو ایفیکٹ: میک اِن انڈیا کے نعرے کو مضبوط کرنے کے لیے وزیر اعظم نے جملہ دیا تھا ’زیرو ڈیفیکٹ اور زیرو ایفیکٹ‘ ۔ اس کے پیچھے دلیل تھی کہ ہندوستان میں ایسی چیزوں کا پروڈکشن ہونا چاہیے جس میں کوئی خامی نہ ہو اور اسے بنانے میں ماحولیات کو نقصان نہ پہنچے۔ لیکن میک اِن انڈیا کے تحت بیرون ملکی کمپنیاں پرزے لا کر اپنے سامان تیار کر رہی ہیں۔ جس تیزی سے الیکٹرانک سامان کا استعمال بڑھ رہا ہے اور پرانے پروڈکٹس بے کار ہو رہے ہیں اس سے ہندوستان جلد ہی کمپیوٹروں کا قبرستان بننے کے دہانے پر کھڑا ہے۔

جملے تو بے شمار ہیں، مثلاً ’’میں وزیر اعظم نہیں، پردھان سیوک ہوں‘، لیکن ملک کی راجدھانی میں نوجوان، بے روزگار اور طلبا تحریک کر رہے ہیں اور پردھان سیوک خاموش ہیں۔ ’میں چوکیدار ہوں‘، یہ بھی کہا تھا وزیر اعظم نے کہ لیکن نیرو مودی جیسے لوگ ہزاروں کروڑ کا چونا لگا کر بیرون ملک بھاگ جاتے ہیں اور چوکیدار کچھ نہیں کر پاتا۔

عوام تو جملے کافی پہلے سے سمجھ گئی تھی، اچھا ہے اب ناگپور کو بھی سمجھ میں آ رہا ہے۔ شاید اسی لیے موہن بھاگوت کہہ رہے ہیں کہ ’کانگریس مُکت بھارت‘ ایک محاورہ یعنی جملہ ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔