میرٹھ: دلت بیٹی کی عصمت کا 3 لاکھ میں سودا!

ایٹہ، اٹاوہ، سیتاپور، بجنور اور اناؤ سے آبروریزی کے واقعات سامنے آنے کے بعد اب میرٹھ میں ایسا واقعہ پیش آیا ہے جس نے ایک بار پھر حکومت کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

آس محمد کیف

میرٹھ: اتر پردیش کی یوگی حکومت کے تمام دعوے کھوکھلے ہیں اور صوبے میں نظم و نسق کی صورت حال مزید خراب ہوتی جا رہی ہے۔ خواتین کے تئیں جرائم کا تو ایسا سلسلہ شروع ہو گیا کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ یکے بعد دیگرے متعدد وقعات منظر عام پر آرہے ہیں ، جن میں عصمت دری کی گئی، قتل کئے گئے اور ظلم و زیادتی کے پہاڑ توڑے گئے۔

حال ہی میں ایٹہ، اٹاوہ، سیتاپور ، بجنور اور اناؤ سے آبروریزی کے واقعات سامنے آنے کے بعد اب میرٹھ میں ایسا واقعہ پیش آیا ہے جس نے ایک بار پھر حکومت کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔

یہاں کے كھركھودا علاقہ میں دبنگ ذات کے دو نوجوانوں نے 4 ماہ تک خوفزدہ کر کے ایک نابالغ دلت دوشیزہ کی عصمت دری کی اور جب وہ حاملہ ہو گئی تو اس کی جان کو خطرے میں ڈال کر اسقاط حمل کروا دیا ۔ جب دلت لڑکی کے اہلخانہ اپنی فریاد لے کر پولس کے پاس پہنچے، تو دبنگوں نے پولس سے ساز باز کر لی۔ بعد ازاں گاؤں میں پنچایت بلائی گئی جس میں دلت بیٹی کی عصمت کا سودا کیا گیا اور 3 لاکھ کی رقم طے کر دی گئی۔

دریں اثنا، کھرکھودا تھانہ انچارج کا تبادلہ ہو گیا ہے اور ایک زیر تربیت آئی پی ایس امت کمار آنند نے یہاں کا چارج سنبھالاہے۔ جب معاملہ ان کے سامنے آیا تو متاثرہ کے والد کی تحریر پر گاؤں کے دو ملزمان وپن اور پون کے خلاف مقدمہ دائر کیا گیا اور دیر رات دونوں ملزمان کو گرفتار بھی کر لیا گیا۔

عصمت دری کی شکار نابالغ دوشیزہ ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتی ہے اور اس کے والدین کھیتوں میں مزدوری کرتے ہیں۔ ملزمان پر الزام ہے کہ انہوں نے لڑکی کی فحش ویڈیو بھی بنائی ہے۔ اس واقعہ کے بعد سے علاقہ میں ایک بار پھر ماحول کشیدہ ہو گیا ہے۔

واضح رہے کہ 2 اپریل کو ’بھارت بند ‘ کے دوران میرٹھ ضلع میں کافی تشدد اور آتشزدگی ہوئی تھی۔ ضلع کے ایک گاؤں شوبھا پور میں ایک دلت نوجوان کا قتل ہونے کے بعد ماحول مزید کشیدہ ہو گئے تھے۔ قتل کے واقعہ میں نامزد ملزمان اور اب عصمت دری کے نامزد ملزمان کی ذات ایک ہی ہے ۔جس کی وجہ سے علاقہ میں ایک بار پھر کشیدگی پیدا ہو گئی ہے۔

لڑکی کے والد نے ’قومی آواز‘ سے بات چیت کے دوران بتایا ’’ہم ایک مہینے سے تھانے کے چکر کاٹ رہے تھے لیکن ان کی بات نہیں سنی جا رہی تھی، جمعہ کو مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ ‘‘ مقدمہ درج ہونے کے بعد دیر شام پولس نے ملزمان کے گھروں پر چھاپہ مارکر دو افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔

متاثرہ کے والد کے مطابق گاؤں کے کچھ لوگ اب بھی ان پر مفاہمت کے لئے دباؤ بنا رہے ہیں اور اہل خانہ کو ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے۔

میرٹھ کے ایس پی دیہات راجیش کمار سنگھ سخت کارروائی کی بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پنچایت میں شامل لوگوں کی شناخت کی جارہی ہے، اے ایس پی اور کھرکھودا تھانہ انچارج امت آنند کے مطابق پنچایت کرنے والو ں کے خلاف بھی مقدمہ قائم کیا جا سکتا ہے۔

میرٹھ کی سماجی کارکن ناحید پروین کہتی ہیں ’’یہ بے حد شرمناک واقعہ ہے کہ چار مہینے تک ایک لڑکی کو ظلم کا شکار بنایا گیا اور پولس خاموش تماشائی بنی رہی۔ ‘‘

متاثرہ کے والد کا دعویٰ ہے کہ کافی دنوں کی بھاگ دوڑ کے بعد اب پولس نے کارروائی کی ہے۔

ریاست میں اچانک خواتین کے تئیں ظلم و ستم میں اضافہ ہونے کے معاملہ پر سابق وزیر کلدیپ اوجول کہتے ہیں کہ ’’پولس بے لگام ہو گئی ہے اور متاثرین کی سماعت نہیں ہو رہی ہے ۔ جس کے سبب مجرم بے خوف ہوکر وارداتوں کو انجام دے رہے ہیں ، یہ واقعہ بہت شرم ناک ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔