ہریانہ: کھٹّر حکومت میں عصمت دری کے واقعات سے ’بیٹی بچاؤ‘ مہم پر سوالیہ نشان

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

ہریانہ میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ مودی حکومت کے ’بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ‘ مہم کے شور کے درمیان ریاست میں لگاتار ہو رہی عصمت دری اور قتل کے واقعات نے منوہر لال کھٹّر حکومت کی خواتین سے متعلق سیکورٹی کی قلعی کھول دی ہے۔ یہ قلعی ایسے وقت میں کھلی ہے جب بیٹیوں کے لیے مودی حکومت کی ’بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ‘ مہم میں ہریانہ کو سب سے زیادہ کامیاب ریاست قرار دیا جا رہا تھا۔ ہریانہ کی چند کامیاب خواتین کی حصولیابیوں کا ڈھول پیٹ کر اور بقیہ بہو بیٹیوں کی خستہ حالی پر پردہ ڈال کر کہیں ہمیں بے وقوف تو نہیں بنایا جا رہا ہے؟ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ملک بھر کی خواتین عدم تحفظ کے سایہ میں زندگی گزار رہی ہیں، لیکن خواتین کی بدحالی کی سوئی ہر بار ’کھاپ پردھان ریاست‘ ہریانہ پر ہی آ کر کیوں رکتی ہے؟

کانگریس کی قومی ترجمان اور پارٹی کے محکمہ مواصلات کی کنوینر پرینکا چترویدی کا کہنا ہے کہ ’’جس بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ رپورٹ کا تذکرہ کیا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ ہریانہ اس میں اوّل ہے، اس رپورٹ میں کئی خامیاں دیکھنے کو ملی ہیں۔ ایک آڈٹ کے دوران یہ خامیاں منظر عام پر آئیں۔ دراصل حکومت نے اپنی شبیہ کو بہتر بنانے کے لیے قصداً غلط ڈاٹا پیش کیا تھا۔‘‘ پرینکا چترویدی نے مزید کہا کہ ’’ہریانہ حکومت خواتین پر ظلم کے تئیں سنجیدہ کیسے ہو گی جب کہ ریاست کے مکھیا ہی اس طرح کی وارداتوں کو چھوٹے موٹے واقعات کہہ کر نکل جاتے ہیں۔‘‘ یہاں خواتین کو آزادی کے نام پر بغیر کپڑوں کے گھومنے کی نصیحت دی جا رہی ہے۔ تحریک چلا رہی خواتین کو طوائف کہا جارہا ہے اور گھونگھٹ کو ’شان‘ سے جوڑ کر دیکھا جا رہا ہے۔‘‘ پرینکا چترویدی کہتی ہیں کہ ’’حد تو یہ ہے کہ حکومت کا ایک وزیر ایک خاتون کا پیچھا کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ کیا ایسی حکومت خواتین کی سیکورٹی کے تئیں سنجیدہ ہو سکتی ہے؟ جب حکومت ہی خواتین کے تئیں بے حس ہوگی تو جرائم تو بڑھیں گے ہی۔‘‘

ہریانہ میں ان جرائم کو فروغ دینے میں کیا کھاپ پنچایتوں کا کردار اہم رہا ہے؟ اس سوال پر خاتون کارکن مانسی پردھان کہتی ہیں کہ ’’یہ حقیقت ہے۔ کھاپ پنچایتوں کے ظالمانہ فیصلوں اور جنسی نابرابری کی وجہ سے ریاست کی شبیہ خراب ہوئی ہے۔ یوں تو خواتین ملک میں کہیں بھی محفوظ نہیں ہیں لیکن ہریانہ میں حالات بد سے بدتر ہیں۔ روزانہ خواتین کے خلاف جرائم کی خبریں سننے کو مل رہی ہیں، مقامی فنکاروں کا قتل ہو رہا ہے، محبت کرنے والوں میں کھاپ کی دہشت ہے۔ مرد کے مقابلے خواتین کو وہ عزت نہیں دی جا رہی جس کی وہ حقدار ہیں۔‘‘

سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا ہریانہ کے پس منظر میں بنی ’دنگل‘ جیسی چند فلموں سے ریاست کی شبیہ بہتر ہوئی ہے؟ اس کے جواب میں پرینکا چترویدی کہتی ہیں کہ ’’فلموں سے سماج پر تھوڑا بہت اثر پڑ سکتا ہے، لیکن ریاست کی شبیہ نہیں چمکائی جا سکتی۔ خواتین کے تحفظ پر زمینی سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘ وہ بتاتی ہیں کہ ’’ہریانہ اجتماعی عصمت دری کے معاملوں میں اوّل نمبر پر ہے۔ حکومت کی توجہ خواتین کی سیکورٹی سے زیادہ گایوں کو بچانے پر ہے کیونکہ یہ آر ایس ایس کے ایجنڈے میں شامل ہے۔ ہاں، گایوں کو بھی بچایا جانا چاہیے لیکن دونوں کو ایک ترازو میں نہیں تولا جا سکتا۔‘‘

نیشنل ویمن کمیشن کی سابق سربراہ للیتا کمار منگلم کہتی ہیں کہ عورت-مرد تناسب معاملے میں ہریانہ کی جو تاریخ رہی ہے وہ اب بھی اس کے لیے رخنہ انداز ہے۔ اس مسئلہ کو سیاسی چشمے سے دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ کہتی ہیں ’’خواتین کے خلاف جرائم کے معاملے تو ملک بھر کے سامنے آ رہے ہیں، لیکن چونکہ جنسی نابرابری کا ایشو ہریانہ میں برسوں سے رہا ہے تو یقیناً عورت-مرد تفریق کے معاملے میں پہلی نظر ہریانہ پر ہی جاتی ہے۔ سماج کا نظریہ بدلنے سے بہتری ممکن ہے۔ اسے سیاسی چشمے سے دیکھنا بند کرنا ہوگا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔