ممبئی فسادات کے مظلومین 20 سال سے انصاف کے منتظر

مختلف سیاسی پارٹیوں اور لیڈروں نےحکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ممبئی فسادات پر مبنی کرشنا کمیشن کی غیر جانبدارانہ اور منصفانہ رپورٹ کو نافذ کرنے کے لیے اقدام کیے جائیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

ممبئی: عروس البلاد ممبئی میں 6 دسمبر کو ایودھیا میں بابری مسجد کی مسماری کے بعد اور پھر جنوری 1993 میں خونریز فسادات پرجسٹس بی این سری کرشنا کی سربراہی میں قائم کیے گئے تحقیقاتی سری کرشنا کمیشن کی رپورٹ کو حکومت کے روبرو پیش کرنے کے تقریباً بیس سال گزر چکے ہیں۔ مختلف سیاسی پارٹیوں اور لیڈروں نےحکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ کمیشن کی اس غیر جانبدارانہ اور منصفانہ رپورٹ کو نافذ کرنے کے لیے اقدام کیے جائیں۔

کمیشن کی رپورٹ کی سفارشات نافذ کیے جانے کے لیے سماجوادی پارٹی کے صدر اور ایم ایل اے ابو عاصم اعظمی ہمیشہ سے اسے نافذ کرنے کے لیے جدوجہد کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ رپورٹ کو نہ صرف نافذ کیا جائے بلکہ قصورواروں کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے۔ اسی طرح عوامی وکاس پارٹی کے سربراہ اور سابق اے سی پی شمشیر خان پٹھان نے بھی رپورٹ کی سفارشات کونافذ کرنے کے لیے فوری کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

سری کرشنا کمیشن ایکشن کمیٹی کے روح رواں ارشد صدیقی نے بھی اپنے اس مطالبہ کو دوہرایا کہ جسٹس بی این سری کرشنا نے جو منصفانہ رپورٹ پیش کی ہے، اس پر عمل آوری انتہائی ضروری ہے۔ ارشد صدیقی نے رپورٹ کے لیے عدلیہ سے بھی رجوع کیا تھا جبکہ سنیئرصحافی خلیل زاہد نے بھی مطالبہ کیا ہے کہ حکومت اس ضمن میں موثر اور ٹھوس قدم اٹھا ئے تاکہ مظلومین کو انصاف مل سکے۔ واضح رہے کہ پہلے کانگریس۔این سی پی اور پھر موجودہ حکومت نے کچھ نہیں کیا ہے، جس کی وجہ سے مظلومین دودہائی سے زائد کا عرصہ گزرجانے کے باوجود انصاف سے محروم ہیں۔ حالانکہ کانگریس اور این سی پی نے انتخابی منشور میں رپورٹ کی سفارشات کو نافذ کرنے کا وعدہ کیا تھا۔

سری کرشنا کمیشن رپورٹ کو پہلی مرتبہ اردو کے قالب میں ڈھالنے والے سنیئر صحافی جاوید جمال الدین نے اس تعلق سے کہا کہ دسمبر1992 یا 6 دسمبر کے بعد اور جنوری 1993، یا 6 جنوری 1993 کے بعد بمبئی پولس کمشنری کی حدود میں ہونے والے پُرتشدد واقعات کے فوری اسباب اور پیدا شدہ حالات کا پتہ لگانا شامل تھا۔ ان حالات اور واقعات کے دوران کونسی تنظیم یا فرد کے ملوث ہونے کے بارے میں پتہ کرنا تھا۔ رپورٹ میں ایک ایک چیز کی نشاندہی کردی گئی ہے لیکن اسے نافذ نہیں کیا جاسکا جیسا کہ سبھی کو علم ہے کہ دسمبر 1992میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد ممبئی میں جوکچھ ہوا تھا، اس پرعوام کے شدید ردعمل کے نتیجے میں ملک کے اُس وقت کے وزیراعظم پی وی نرسمہاراؤ کی ہدایت پر حکومت مہاراشٹر نے دونوں دور (دسمبر 1992 اور جنوری 1993)کے فسادات اور پُرتشدّد واقعات اور واردتوں کی تحقیقات کی غرض سے ایک عدالتی کمیشن ہائی کورٹ کے سٹنگ جج کی قیادت میں تشکیل دینے کا فیصلہ کیا اور اس تعلق سے25جنوری 1993 کو حکومت مہاراشٹر کے محکمہ داخلہ نے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا اور اس تحقیقات کا مقصد واضح کیا گیا۔

ان کے مطابق اس تحقیقات کا مقصد تھا کہ پولس نے فساد کے دوران پیش آنے والے ان واقعات کی روک تھام کے لیے پیشگی اور احتیاطی تدابیر کیں اور اقدامات کیے گئے۔ اس عرصہ کے دوران ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات پر قابو پانے کیلئے پولس کے اقدامات موثر اور مناسب تھے اور پولس کی فائرنگ کے نتیجے میں ہونے والی اموات حق بجانب تھیں یا نہیں، اس دوران انتظامیہ نے آئندہ ہونے والے اس قسم کے واقعات کی روک تھام کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کی اور قومی ہم آہنگی برقرار رکھنے اور شہر میں امن وامان اور لا اینڈ آرڈر کی مشنری کی بہتر کارکردگی کے لیے اور ان معاملات میں دیر پاحل پیش کرنا بھی تحقیقات میں شامل رکھا گیا تھا۔ لیکن یہ افسوسناک امر ہے کہ شیوسینا۔ بی جے پی محاذ حکومت کے وزیراعلیٰ منوہر جوشی کے دورمیں جسٹس سری کرشنا نے حکومت کو رپورٹ پیش کی تھی، لیکن مہاراشٹر اسمبلی کے دونوں ایوانوں میں وزیراعلیٰ نے رپورٹ کو تسلیم نہیں کرتے ہوئے اسے مسترد کردیا اور اے ٹی آر میں منفی باتیں کیں اورصرف پولس کی جدید کاری اور جدید اسلحہ مہیا کرانے کا وعدہ کیا تھا۔


البتہ جسٹس سری کرشنا نے اپنی رپورٹ پیش کرتے یہ تاثرات ظاہر کیے تھے کہ کمیشن کے سامنے جوثبوت پیش کیے گئے ہیں۔اس سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ انسانی جبلت ہے کہ وہ ہرحال میں آگے بڑھنا چاہتا ہے۔اختلاف ،کشمکش ہیجان اوررنگ ونسل اور مذہب پر بھی تنازعات پیدا ہوتے ہیں۔

کمیشن نے اس بات کو محسوس کیا ہے کہ دسمبر 1992اور جنوری1993 کے فسادات زیادہ تر ’’پریم نگر ‘‘،’’شانتی نگر ‘‘اور ’’گاندھی نگر‘‘جیسے علاقوں میں ہوئے تھے۔’’اہنسا پرامود دھرم ‘‘اور مہاتما گاندھی کی سرزمین پر خونریز فسادات اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ محبت اور بھائی چارگی کی تعلیمات دل کی گہرائیوں تک نہیں پہنچی ہیں ۔اس طرح کی کوشش نہیں کی گئی تو فرقہ وارانہ تشدد شہر میں باربار ہوں گے۔کمیشن امید کرتا ہے کہ دونوں دورکے فسادات سے کھلے ذہن اور آنکھوں والے سبق حاصل کریں گے اور تعمیراتی نکتہ چینی کو قبول کریں گے۔

رامائن کے لافانی الفاظ میں ۔۔۔ایسے آدمی کا پانی آسان ہے ،جس کی گفتگو سے لوگ خوش ہوتے ہیں ،ایسے آدمی کا ملنا مشکل ہے جو تلخ بولتا اور سنتا ہے ،لیکن جو حقیقت پرمبنی ہوتی ہے۔کمیشن نے دوواقعات کے بارے میں خصوصی طورپر ذکر کیا ہے کہ پولیس نے بے قصوروں کو بے دردی سے گولی ماری تھی ،ان میں ایک واقعہ جنوبی ممبئی میں محمدعلی روڈ پر واقع سلیمان عثمان بیکری اور متصل مدرسے میں پیش آیا ،اور بے گناہوں کو نشانہ بنایاگیا جبکہ دوسرا واقعہ جنوب وسطی ممبئی میں سیوڑی علاقہ میں واقع ہلال مسجد میں پیش آیا جب نہتے نمازیوں کو گولی سے بھون دیا گیا اور انہیں شرپسند ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ۔کمیشن نے پولیس افسران اور اہلکاروں کی ایک فہرست شائع کی تھی جس میں کہا گیا تھا ،ان پولیس اہلکاروں نے کئی موقعوں پر تعصب کا مظاہرہ کیا جن میں بعد میں ممبئی کے پولیس کمشنر بنائے گئے آرڈی تیاگی سرفہرست تھے ،کمیشن کا خیال ہے کہ پولیس کے ذہن میں ایک عام تاثر ہے کہ مسلمان شرپسند ہوتے ہیں اور اس کا اعتراف خصوصی برانچ کے ایک اعلیٰ افسر وی این دیشمکھ نے بھی کمیشن کے سامنے کیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 20 Oct 2018, 1:09 PM