تلنگانہ اسمبلی میں این پی آر، این آر سی اور سی اے اے کے خلاف قرارداد منظور

ریاست تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ چندر شیکھر راؤ نے مودی حکومت کے ذریعہ لائے گئے متنازعہ قوانین سی اے اے، این آر سی، این پی آر پر تشویش کا اظہار کیااور کہاکہ مرکز کو چاہیے کہ اس پر دوبارہ نظر ثانی کرے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

حیدرآباد: تلنگانہ قانون ساز اسمبلی میں متفقہ طور پر این پی آر، این آر سی اور سی اے اے کے خلاف قرار دادا منظور کی گئی۔قبل ازیں وزیراعلی کے سی آر کے علاوہ دیگر جماعتوں کے ارکان نے اس قرار داد پر اظہار خیال کیا۔بی جے پی رکن اسمبلی راجہ سنگھ نے قرار داد کی مخالفت کی۔بعد ازاں اسپیکر اسمبلی سرینواس ریڈی نے اسے منظور کردیا۔

وزیراعلی چندرشیکھرراو نے اسمبلی میں این پی آر، این آر سی اور سی اے اے کے خلاف قرار داد پیش کی ہے اور اس پر ایوان میں بحث کا آغاز کیا۔انھوں نے کہا کہ اب تک ملک کی 7 ریاستوں میں ان قوانین کے خلاف اسمبلی میں قرار داد منظور کرتے ہوئے مرکز سے اس قانون کو واپس لینے کا مطالبہ کیاگیا۔آج تلنگانہ ملک کی 8 ویں ریاست ہے جہاں اسمبلی میں اس قانون کے خلاف قرار داد منظور ہوئی ہے۔انھوں نے آج ایوان کی کارروائی کے آغاز کے ساتھ ہی اس مسئلہ پر مباحث کا آغاز کیا۔انہوں نے کہا کہ اس قرارداد کو منصفانہ قراردینے کی وجوہات ہیں۔


انہوں نے کہاکہ ہندوستان جیسے مہذب معاشرہ میں ہم ایسے نقصان دہ قانون کو برداشت نہیں کرسکتے جس کے نتیجہ میں ملک کے کئی علاقوں میں بے چینی پیداہوئی ہے اور لوگوں کے دلوں میں خدشات نے جنم لئے ہیں۔انہوں نے واضح کیا کہ ملک کو تقسیم کی سیاست کی ضرورت نہیں ہے۔ایسی تنگ ذہن سیاست کی مخالفت کی ضرورت ہے۔ناراضگی کو مخالف ملک قرارنہیں دیاجاسکتا جو آج کل ہورہا ہے۔انہوں نے نشاندہی کی کہ ملک بھر میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کیے جارہے ہیں۔

چندرشیکھرراو نے کہا کہ یہ صرف مسلمانوں کا ہی مسئلہ نہیں ہے بلکہ پورے ملک کا مسئلہ ہے۔انہوں نے کہاکہ اس ملک میں ہمیں رائے دہی کا اختیار دیاگیا ہے۔ہر کسی کے پاس ووٹر آئی ڈی کارڈ،ڈرائیونگ لائسنس،آدھار کارڈ ہیں۔انہوں نے سوال کیا کہ برتھ سرٹیفکیٹ نہ رکھنے والوں کی صورتحال کیسی ہوگی؟انہوں نے کہا کہ خود ان کے پاس برتھ سرٹیفکیٹ نہیں ہے۔اس طرح کی صورتحال ملک کے لاکھوں افراد کی ہے۔کسی نے بھی یہ نہیں کیا کہ ملک میں دراندازی کرنے والوں کو کس نے اس کی اجازت دی۔


انہوں نے کہا کہ ان کی ٹی آرایس پارٹی سیکولر بنیادوں کی حامل ہے جس نے بھی پارلیمنٹ میں اس بل کی مخالفت کی ہے۔موجودہ حکومت نے مسلمانوں کو سی اے اے سے باہر رکھا ہے۔ہندوستان کا دستور مذہب سے اونچا ہے۔اگر کوئی سی اے اے کی مخالفت کرتا ہے تو کیاوہ ملک کا غدار کہلائے گا؟کیاوہ پاکستان کا ایجنٹ ہوگا؟انہوں نے واضح کیا کہ اس ملک میں سینکڑوں برسوں سے میٹروپالیٹکل کلچر ہے۔ایک ایسے وقت جب آفاقی دوستی کی ضرورت ہے،اس طرح کے قانون سے ملک کی شبیہ متاثر ہورہی ہے۔

کیرل،پنجاب،دہلی،بہار،چھتیس گڑھ،مغربی بنگال کی اسمبلیوں نے بھی سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے خلاف قرارداد منظور کی ہے۔ اب تک ملک کی 7 ریاستوں میں ان قوانین کے خلاف اسمبلی میں قرار داد منظور کرتے ہوئے مرکز سے اس قانون کو واپس لینے کا مطالبہ کیاگیا ہے۔آج تلنگانہ ملک کی 8 ویں ریاست ہے جہاں اسمبلی میں اس قانون کے خلاف قرار داد منظور کی جا رہی ہے۔ملک میں پہلی مرتبہ سی اے اے کے خلاف قرارداد منظور کرنے والی کیرل اسمبلی ہے۔


انہوں نے کہاکہ تلنگانہ کا شمار ان ریاستوں میں ہوتا ہے جو ملک کی مجموعی گھریلو پیداوار میں اپنی حصہ داری اداکررہی ہے۔انہوں نے کہاکہ تلنگانہ ملک کی نئی ریاست ہے جو ملک کی تعمیر میں اپنا رول ادا کررہی ہے اور اس کو ایسے مسائل پر بات کرنے کی ذمہ داری حاصل ہے۔چندرشیکھرراو نے مرکز کے متنازعہ قوانین پر تشویش کا اظہار کیااور کہاکہ مرکز کو چاہیے کہ سی اے اے پر دوبارہ نظر ثانی کرے۔انھوں نے کہا کہ اس طرح کے قوانین کی منظوری سے ملک بھر میں احتجاج چل رہا ہے۔ امریکی صدر کے دورہ کے موقع پر دہلی میں فسادات ہوئے جس میں 50 افراد ہلاک ہوگئے۔

وزیراعلی نے کہا مذہب کی بنیاد پر عوام کو تقسیم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ملک بھر میں فرقہ وارانہ ماحول پیدا کرنے’گولی مارو‘ جیسے نعرے دیئے جا رہے ہیں جو افسوسناک عمل ہے۔ راو نے الزام لگایا کہ بی جے پی نے عارضی سیاسی فائدہ کے لئے سی اے اے کو سامنے لایا ہے۔عملی طورپر اس قدم سے سوائے مذہبی خطوط پر لوگوں کی تقسیم کے کسی بھی طبقہ کو فائدہ نہیں ملے گا۔مرکزکوچاہیے تھا کہ وہ اس مسئلہ پر پارلیمنٹ میں بل کی پیشکشی سے قبل ہر طبقہ کی رائے لیتی۔اس ایکٹ کے نتیجہ میں سیاسی بے چینی کی صورتحال ملک بھرمیں دیکھی گئی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */