دہلی: لاٹھی تھامے تلک دھاری نے کہا ’تمہارا نام کیا ہے! وہاں نہ جاؤ، محفوظ نہیں رہوگی‘

کیا تم مسلمان ہو، یہ کیسا سوال ہے؟ ہندو سینا کے کارکن راجن نے موج پور میٹرو اسٹیشن کے نزدیک یہ سوال پوچھا۔ موج پور شمال مشرقی دہلی کا وہ علاقہ ہے جہاں اتوار کے روز سے تشدد ہو رہا ہے

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

ایشلن میتھیو

ایشلِن میتھیو کی آنکھوں دیکھی

کیا تم مسلمان ہو؟ یہ کیسا نام ہے؟ ہندو سینا کے کارکن راجن نے موج پور میٹرو اسٹیشن کے قریب مجھ سے یہ سوال پوچھا۔ موج پور شمال مشرقی دہلی کا علاقہ ہے۔ جعفر آباد، موج پور، نور الٰہی، گھونڈا، بھجن پورہ اور چاند باغ جیسے علاقوں میں اتوار سے تشدد ہو رہا ہے۔

جب میں موج پور کے نور الٰہی علاقے کی طرف جارہی تھی تو ماتھے پر بھگوا (زعفرانی) تلک لگائے اور ہاتھ میں لاٹھی تھامے ایک نوجوان نے مجھ سے ایک سوال پوچھا۔ سوال سے میں حیران و ششدر رہ گئی۔ اس سے قبل کہ میں جواب دیتی وہاں سے گزرنے والے ایک شخص نے کہا، ’’وہ ہندوستانی ہے۔‘‘ ایسا محسوس ہوا کہ اس جواب کے بعد راجن چونک گیا اور اس کی آواز میں بھی نرمی آ گئی۔ پھر بھی وہ میرا مذہب پوچھنے لگا۔ آخرکار مجھے یہ کہنا پڑا کہ میں عیسائی ہوں۔ اس کے بعد وہ تھوڑا کھل کر بات کرنے لگا۔ یہ میری زندگی کا پہلا موقع تھا جب مجھ سے میرا مذہب پوچھا گیا اور اس کے بعد مجھے جانے دیا گیا۔


دہلی: لاٹھی تھامے تلک دھاری نے کہا ’تمہارا نام کیا ہے! وہاں نہ جاؤ، محفوظ نہیں رہوگی‘

راجن نے کہا، ’’اب ہندو جاگ گئے ہیں۔ آپ خبروں میں ہمارا موقف کبھی نہیں دکھاتے۔ ہم چاروں طرف سے پاکستانیوں سے گھرے ہوئے ہیں، تو ہم محفوظ کس طرح رہ سکتے ہیں؟ اگر مسلمان 2 مہینوں تک دھرنے پر بیٹھ سکتے ہیں تو پھر ہم سی اے اے کی حمایت میں کیوں نہیں نکل سکتے۔ آپ مجھے اپنا نمبر دیں تاکہ میں اپنی طرف کے مظاہرے کے بارے میں معلومات دے سکوں۔‘‘ اس کے بعد راجن آگے چلا گیا۔


جعفرآباد سے چاند باغ تک جانے والے 5 کلو میٹر کے راستے کے دونوں اطراف زبردست تشدد ہوا۔ درجنوں دکانوں میں توڑ پھوڑ اور آگزنی کی گئی۔ ان میں بیشتر دکانیں مسلمانوں کی تھیں۔ پولیس نے علاقے کو محاصرے میں لے رکھا ہے اور یہاں ہندو اور مسلم علاقوں کا حال واضح طور پر مختلف نظر آتا ہے۔

دہلی: لاٹھی تھامے تلک دھاری نے کہا ’تمہارا نام کیا ہے! وہاں نہ جاؤ، محفوظ نہیں رہوگی‘

سیلم پور سے ذرا آگے جعفر آباد کے بعد مسلم خواتین پچھلے 45 دنوں سے ایک عارضی خیمے میں دھرنا دے رہی ہیں۔ اتوار کے روز بھیم آرمی کی کال پر مظاہرین نے بھارت بند کی حمایت میں ایک طرف کی سڑک بند کردی۔ اس کے بعد بی جے پی لیڈر کپل مشرا اپنے حامیوں کے ساتھ موج پور پہنچ گئے اور انہوں نے دہلی پولیس افسران کے سامنے راستہ کھولنے کے حوالہ سے دھمکی دی، اس کے بعد حالات اور خراب ہوگئے۔

دہلی: لاٹھی تھامے تلک دھاری نے کہا ’تمہارا نام کیا ہے! وہاں نہ جاؤ، محفوظ نہیں رہوگی‘

تشدد کے دوران متعدد مقامات پر توڑ پھوڑ کی گئی، پٹرول بم پھینکے گئے۔ پیر کے روز جعفرآباد میں دھرنے پر بیٹھی خواتین انتہائی پریشان نظر آئیں۔ پیر کے روز ہونے والے تشدد میں کم از کم 5 افراد ہلاک ہوگئے، جن میں دہلی پولیس کا ایک کانسٹیبل بھی شامل ہے۔ دراصل، یہاں سے کچھ آگے خواتین نے جعفرآباد میٹرو اسٹیشن کے نیچے دھرنا دینا شروع کیا تھا۔ رفتہ رفتہ یہاں لوگوں کی تعداد بڑھنے لگی۔ ایسی صورتحال میں مردوں نے نگہبانی کی تاکہ کوئی شرارتی عنصر گڑبڑی پیدا نہ کر دے۔ لیکن تھوڑی ہی دیر میں ایک تلک دھاری نوجوان وہاں نمودار ہوا۔ لوگوں نے اسے گھیر لیا اور فوراً اسے وہاں سے چلے جانے کو کہا۔ کسی نے اسے ہاتھ تک نہیں لگایا۔

موقع پر موجود عمران نے بتایا، ’’ہم لوگوں کو مسلسل بتا رہے ہیں کہ فساد بھڑکانے والے ہندوستانی نہیں ہو سکتے۔ وہ غنڈے ہیں۔ ہمیں ہندو بھائیوں سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اگر ان میں سے کسی کو تکلیف ہوتی ہے تو درد ہمیں بھی ہوتا ہے۔ جب ہجوم حملہ کرتا ہے تو وہ راستے میں آنے والی ہر چیز کو برباد کر دیتا ہے۔‘‘


دہلی: لاٹھی تھامے تلک دھاری نے کہا ’تمہارا نام کیا ہے! وہاں نہ جاؤ، محفوظ نہیں رہوگی‘

لیکن موج پور علاقے میں صورتحال بالکل مختلف ہے۔ یہ بنیادی طور پر ہندو اکثریتی علاقہ ہے۔ دیر رات گئے تک ان علاقوں میں لوگ ہاتھوں میں لاٹھیاں، ڈنڈے اور لوہے کی راڈ وغیرہ لے کر گھومتے نظر آئے۔ جے شری رام کے نعروں کے درمیان متعدد دکانوں کو نقصان پہنچایا گیا۔ علاوہ ازیں، یہ لوگ ’دیش کے غداروں، کو گولی مارو .....‘ نعرے بھی گونجتے رہے۔ علاقے میں رہنے والے لوگوں کو بخوبی یہ اندازہ تھا کہ ہجوم کیا کرنے جا رہا ہے۔ انہوں نے اپنے طور پر علاقے کو گھیرے میں لے لیا تھا اور پولیس بھی وہاں موجود تھی لیکن آنکھوں کے سامنے ہونے والے تشدد کو صرف دیکھ رہی تھی۔ اس علاقے کے عمائدین نے مشورہ دیا کہ آگے نہ جائیں کیونکہ وہاں پتھراؤ اور آگزنی ہو رہی تھی۔ انہوں نے مجھے یہ بھی مشورہ دیا کہ فون باہر مت نکالنا کیونکہ کوئی بھی ہاتھ سے چھین کر بھاگ جائے گا۔


اس پورے علاقے میں دفعہ 144 نافذ ہے لیکن موج پور میٹرو اسٹیشن کے قریب واقع شنی مندر کے پاس تقریباً 400 لوگوں کا ہجوم تھا۔ بھیڑ وندے ماترم کے نعرے لگا رہی تھی۔ شنی مندر کے نزدیک بیٹھی جیوتی نے کہا، ’’دونوں طرف سے پتھراؤ کیا گیا۔ ہمارے کئی بیٹوں کو چوٹ لگی ہے۔ جو ہمارا ہے اسے حاصل کرنے کے لئے بھلا ہم کیوں نہ باہر نکلیں؟ ہم چاروں طرف سے مسلمانوں سے گھرے ہوئے ہیں، انہیں کیا حق ہے کہ وہ ہمارا راستہ بند کر دیں؟ وہ ہمیں حکم نہیں دے سکتے۔‘‘

تھوڑا سا آگے جانے پر وجے پارک میں خاموشی طاری ہے کیونکہ یہ مخلوط آبادی ہے۔ وہیں مسلم اکثریتی علاقہ نور الہٰی بھی موجود ہے۔ دونوں ہی علاقے کے لوگ چوکنا نظر آئے۔ ہندو اکثریتی علاقوں میں جہاں لوگ سڑکوں پر لاٹھی، ڈنڈے، لوہے کی راڈ وغیرہ کو لے کر سڑکوں پر گھومتے نظر آئے، وہیں مسلم اکثریتی علاقوں میں کچھ لوگ لاٹھیاں وغیرہ لئے اپنے گھروں کے سامنے جمع نظر آئے۔


اس علاقے سے تعلق رکھنے والے دانش نے کہا، ’’پولیس غنڈوں کو پتھربازی کرنے میں مدد کر رہی ہے۔ دونوں علاقوں کا فرق آپ خود دیکھ لیں۔ پولیس ہم سے گھروں میں بند رہنے کے لئے کہہ رہی ہے لیکن وہاں ہجوم ان کے ساتھ کھڑا ہے جبکہ دفعہ 144 نافذ ہے۔‘‘ اسی علاقے کے حسین نے بتایا، ’’ہندو بھیڑ لوگوں کی پتلون اتروا کر چیک کر رہی ہے کہ کون ہندو ہے اور کون مسلمان! میں نے سنا ضرور ہے کہ دو ایک لوگوں کے ساتھ ایسا ہوا ہے لیکن اس کی کوئی مصدقہ خبر نہیں ہے اور یہ سب پولیس کی موجودگی میں ہو رہا ہے۔‘‘

اسی علاقے کے فہد نے بتایا، ’’ایک غنڈہ ’پریا گارمنٹس اسٹور‘ کی چھت پر چڑھ گیا اور اس نے ہم پر فائر کیا۔ اس میں کم از کم 5 افراد زخمی ہوئے۔ کیا دہلی پولیس ہماری مدد کرے گی؟ ہم آرڈر مان لیتے ہیں لیکن وہ لوگ پولیس کی بات نہیں سنتے۔ کب تک ہم ہندو سینا کے غنڈوں کی دہشت کا سامنا کریں گے! وہ ہماری گلیوں میں گھوم رہے ہیں، ہم پر حملہ کر رہے ہیں، ہم تو صرف خواتین کی حفاظت کے لئے کھڑے ہیں۔ یہاں لوگوں نے متعدد سی سی ٹی وی کیمرے توڑ دیئے ہیں تاکہ ان کی حرکتیں ریکارڈ نہ ہو جائیں۔‘‘ فہد نے زمین پر خون کے داغ دکھاتے ہوئے بتایا کہ یہاں ایک شخص کی ران میں گولی لگی تھی۔ کچھ لوگوں کو بازو میں اور کچھ کو پیٹ میں گولی لگی ہے۔ انہیں اسپتال پہنچایا گیا ہے۔


سب سے زیادہ تشدد بھجن پورہ علاقے میں ہوا ہے۔ یہاں جگہ جگہ موٹرسائیکلیں، ٹرک و بسیں وغیرہ جلی ہوئی حالت میں پڑی ہوئی ہیں۔ دیر رات تک کئی علاقوں سے دھواں اٹھتا رہا۔ فائر بریگیڈ کی کچھ گاڑیاں بھی آگ بجھانے کی کوشش کرتی نظر آئیں۔

چاند باغ اور کھجوری علاقوں میں کوئی بات کرنے کو تیار نہیں ہے، انہوں نے آگے جانے کا مشورہ دیا۔ یہ دونوں علاقے مسلم اکثریتی ہیں۔ اپنے آپ کو ہندو کہنے والے ایک شخص نے کہا، ’’اس طرف کیوں جا رہی ہو؟ بھجن پورہ تھانے چلی جاؤ اور رات بھر وہیں قیام کرنا۔ دہلی کی طرف مت جانا کیونکہ اس علاقے سے نکلنے کے بعد تم محفوظ نہیں رہوگی۔‘‘


چاند باغ کی طرف بڑھنے پر تشدد کے نشانات واضح طور پر نظر آتے ہیں۔ متعدد مقامات پر آگزنی کی گئی ہے اور لوگ خوفزدہ نظر آ رہے ہیں۔ ماحول میں زبردست تناؤ ہے۔ ہر ایک آنے جانے والے کو شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ لوگوں کو میڈیا پر اعتماد نہیں ہے، ان کا خیال ہے کہ صحافی غیرجانبدار نہیں ہیں۔

کھجوری میں خود کو شاہین باغ کہنے والی ایک خاتون نے کہا، ’’میڈیا ان کی طرف ہے۔ سپریم کورٹ ان کی طرف ہے۔ دہلی پولیس ان کی طرف ہے۔ ہم تشدد کی حمایت نہیں کرتے، چاہے کسی کے بھی خلاف ہو، لیکن ہمارے ساتھ کون کھڑا ہے؟‘‘ وہاں موجود دیگر خواتین نے بھی کہا کہ ’’ہم سب شاہین باغ ہیں۔ ہمارا کوئی دوسرا نام نہیں ہے۔ پلیز صحیح صحیح خبر لکھنا کہ تم نے کیا دیکھا! ہم آج رات گھروں کو واپس جا رہے ہیں کیونکہ ہمارا خیال ہے کہ مزید تشدد ہوگا۔ ہمیں جدوجہد کے لئے زندہ رہنا ہوگا، اگر ہم زندہ نہیں رہیں گے تو کون احتجاج کرے گا!‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 25 Feb 2020, 6:30 PM