دہلی میں گجرات کا ’ری پلے‘: یہ فسادات منصوبہ بند تھے، تیاری پہلے سے کی جا رہی تھی

شاید فسادات برپا کرنے والوں کا مقصد بھی یہی تھا کہ مسلمانوں کو اقتصادی ومعاشی طور پر تباہ و برباد کر دیا جائے جس میں وہ لوگ کسی حد تک کامیاب رہے

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

م. افضل

م۔افضل

دہلی میں مذہبی منافرت کا جو نیا کھیل کھیلا گیا اس نے پورے شمال مشرقی دہلی کو جلا کر خاکستر کر دیا ہے، وہاں درندگی اور حیوانیت کا جو مظاہرہ ہوا اس نے انسانی بستیوں کو شمشان میں تبدیل کردیا ہے گھروں کو ہی نہیں بلکہ کئی مقامات پر تو گھر کے مکینوں کو بھی زندہ جلائے جانے کی افسوسناک خبریں ہیں، دکانوں، عبادت گاہوں اوردرگاہوں کو بھی نہیں بخشا گیا، مسلسل تین روز تک فسادیوں کو کھلی چھوٹ ملی اور وہ سڑکوں وگلیوں میں بے گناہوں کو اپنی بربریت کا نشانہ بناتے رہے، اس پورے عرصہ میں پولیس نے یا تو خاموش تماشی کا کردار ادا کیا یا پھر بلوائیوں کا ساتھ دیتی نظر آئی۔

2002 میں گجرات میں بھی یہی ہوا تھا چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ دہلی میں جو کچھ ہوا یہ ایک طرح سے گجرات کا ’ری پلے‘ تھا جس طرح وہاں پولیس کو کہا گیا تھا کہ جوکچھ ہو رہا ہے ہونے دیں، ٹھیک اسی طرح دہلی میں بھی جب مارکاٹ اور آتش زنی کا سلسلہ شروع ہوا تو پولیس بے حس بنی رہی بلکہ کئی جگہ تو وہ بلوائیوں کے ساتھ کھڑی نظرآئی ایسے کئی ویڈیوز شوسل میڈیا پر وائرل ہیں جو اس بات کی تائید کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ ویڈیوز میں پولیس کو وہاں نصب سی سی ٹی وی کیمروں کو توڑتے ہوئے بھی دیکھا جاسکتا ہے، آخر پولیس ایسا کیوں کر رہی تھی؟ صاف ظاہر ہے کہ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کی حرکتوں کا ثبوت کیمروں میں قید ہو ان ویڈیوز کو جن میں سے کئی ویڈیوز کو بعض ٹی وی چینلوں نے دکھایا بھی ہے، دیکھ کر ان فسادات کی کرونولوجی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔


بلاشبہ ان فسادات کا تقابل 1984 کے فسادات سے کیا جاسکتا ہے فرق صرف یہ ہے کہ تب ایک دوسرے اقلیتی فرقے کے خلاف بربریت کا مظاہرہ پورے ملک میں ہوا تھا مگر یہ فسادات صرف ایک بڑے علاقے تک محدود تھے، دہلی میں ابھی 8 فروری کو ہی الکشن ہوئے تھے جس میں بی جے پی اور اس کے ہمنواؤں نے اپنی مسلسل اشتعال انگیزی اور زہریلے بیانات سے فساد برپا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی، الکشن کے دوران بی جے پی کے ہر لیڈر نے ایک مخصوص مذہبی اقلیت کے خلاف اکثریت کو صف بندی کرنے کی غرض سے اکسانے والی تقریریں کی تھیں مگر تب دہلی میں امن رہا یہاں تک کہ کسی علاقہ میں معمولی کشیدگی بھی نہیں پیدا ہوئی، پھر ایسا کیا ہوا کہ نتائج آنے کے چند روز بعد ہی لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے؟ یہ ایک بڑاسوال ہے اور اس سوال کے جواب میں ہی حالیہ فسادات کا خوفناک راز بھی چھپا ہوا ہے۔

ایک بڑا سوال یہ بھی ہے کہ دہلی کو جلانے کے لئے اسی وقت کا انتخاب کیوں ہوا جب امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ ہندوستان کے دورہ پر آرہے تھے تو کیا اس کی کوئی خاص وجہ تھی کیا یہ فسادات منصوبہ بند تھے اور کیا کسی با اثرشخص کے اشارے پر یہ سب کچھ ہوا؟ یہ سوالات بہت اہم ہیں جو کچھ ہوا اسے اتفاق پر معمول نہیں کیا جاسکتا، جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ سی اے اے، این پی آر اور این آر سی کے خلاف احتجاج پچھلے کئی مہینوں سے چل رہے ہیں، نہ صرف شاہین باغ میں بلکہ اس کی طرز پر پورے ملک میں پرامن احتجاجات ہو رہے ہیں، شمال مشرقی دہلی میں بھی کئی جگہ احتجاج ہو رہے تھے، مگر ان کی وجہ سے کبھی شہر کا فرقہ وارانہ ماحول خراب نہیں ہوا، لیکن ٹرمپ کی آمد سے ایک روز قبل اپنے زہریلے بیانات کے لئے بدنام بی جے پی کے ایک ناکام لیڈرکا جعفرآباد کی طرف جانا اور ڈی ایس پی و پولیس کی بھاری موجودگی میں اس کا مظاہرین کو دھمکی دینا ایک بڑی سازش کا پتہ دیتا ہے۔


افسوسناک بات یہ ہے کہ پولیس نے اس دھمکی کا سنجیدگی سے نوٹس نہیں لیا دوسری طرف اس دھمکی کے بعد فرقہ پرست طاقتوں نے ٹرمپ کے واپس جانے کا انتظار بھی نہیں کیا اور دوسرے ہی دن سے وہاں مارکاٹ اورآتش زنی کا سلسلہ شروع ہوگیا، یہاں تک کہ جس روز پوری سرکار راجدھانی میں ٹرمپ کے استقبال میں مصروف تھی شمال مشرقی دہلی میں فسادیوں کے جھنڈ کے جھنڈ لوگوں کو مار رہے تھے اور گھروں اور دوکانوں میں آگ لگا رہے تھے، تب بھی سرکار نے بے حسی کا مظاہرہ کیا اور پولیس حسب معمول فسادیوں کی معاونت میں مصروف رہی، اس سے صاف ظاہر ہے کہ منافرت کی جو بارود ان علاقوں میں منصوبہ بند طریقہ سے کافی دنوں سے بچھایا جارہا تھا، کپل مشراکی دھمکی نے اس میں آگ لگانے کا کام کیا۔

پولیس اور انتظامیہ کے لوگ اگر غیر جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا فرض ادا کرتے تو اس آگ کو پھیلنے سے روکا جاسکتا تھا، مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا پھر یہ ہوا کہ یہ آگ رفتہ رفتہ پورے شمال مشرقی دہلی میں پھیلتی گئی تین روز تک بلوائیوں کو کھلی چھوٹ ملی اور وہ قتل وغارت گری میں مصروف رہے اب تک کوئی ایک بھی ایسا ویڈیوز منظرعام پر نہیں آیا کہ جس سے یہ پتہ چل سکے کہ پولیس نے کہیں فسادیوں کو روکنے کی کوشش کی ہو، یہاں تک کہ بلوائیوں کو ڈرانے کے لئے اس نے کوئی ہوائی فائرنگ بھی نہیں کی، کیا اس کے بعد بھی یہ کہا جاسکتا ہے کہ جو کچھ ہوا وہ محض ایک اتفاق ہے؟ ایسے ان گنت ویڈیوز بھی وائرل ہیں جن سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ کچھ لوگ بیٹھ کر ان فسادات کی باقاعدہ نگرانی اور فسادیوں کو وہیں سے ہدایات بھی جاری کر رہے تھے۔


ان فسادات کے حوالہ سے میری کئی اہم شخصیتوں اور ماہرین سے گفتگو ہوئی اور ان سب نے یہ اعتراف کیا کہ یہ فسادات منصوبہ بند تھے، اب بات وہیں لوٹ کر آجاتی ہے کہ آخر ان فسادات کے پیچھے کا کیا مقصد کارفرما تھا؟ سچائی یہ ہے کہ شاہین باغ اور اس کی طرز پر ملک بھرمیں جو احتجاج ہو رہے ہیں ان سے کہیں نہ کہیں مودی سرکارخوف زدہ نظرآتی ہے، اب چونکہ شاہین باغ کے ساتھ ساتھ دہلی کے دوسرے کئی علاقوں میں بھی مہینوں سے احتجاج ہو رہے تھے اور اس کی خبریں اخبارات میں تواتر کے ساتھ چھپ رہی تھیں اس سے یہ لوگ گھبرا گئے، چنانچہ ان فسادات کے ذریعہ اس طرح کے احتجاجات کو ختم اور مظاہرین کو خوف زدہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

جعفرآباد میں ہونے والا احتجاج بھی شاہین باغ کی طرح ایک بڑااحتجاج بن چکا تھا اس لئے ابتدا وہاں سے کی گئی۔ ادھر پچھلے ایک ہفتہ سے سی اے اے اور این پی آر کے خلاف ہونے والے احتجاجات کی خبروں کی جگہ اخبارات اور ٹی وی چینلوں پر فسادات کی خبریں اور رپورٹیں مسلسل اولیت پا رہی ہیں غالباً فساد برپا کرنے والوں کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ لوگوں کی توجہ ان احتجاجات سے ہٹ جائے۔ ہوا بھی یہی احتجاج کی خبروں کی جگہ اب لوگوں کی توجہ فسادات سے جڑی خبروں پر مرکوز ہوگئی ہے، اب شاہین باغ کے احتجاج کو بھی ختم کرانے کی سازش ہوسکتی ہے اس تعلق سے ویڈیوز جاری کرکے کچھ لوگ دھمکیاں دے رہے ہیں مگر ان کے خلاف بھی کوئی کارروائی نہیں ہورہی ہے، ان فسادات کی ایک دوسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ حالیہ الیکشن میں دہلی میں جو سماجی اور مذہبی اتحاد نظر آیا اسے بی جے پی اپنی تمام تر شرانگیزیوں کے باوجود توڑ نہیں سکی اور جس کی وجہ سے اسے شرمناک شکست کا منہ دیکھنا پڑا، بعید نہیں ان فسادات کے ذریعہ اسے توڑنے کی سازش کی گئی ہو۔


اخبارات کی رپورٹیں یہ بتاتی ہیں کہ فساد برپا کرنے والے باہری تھے، انگریزی روزنامہ ٹائمس آف انڈیا نے اس سلسلہ میں اپنے نمائندوں کے حوالہ سے جو رپورٹیں شائع کی ہیں ان میں بھی اس بات کو اجاگر کیا گیا ہے، نمائندوں نے متاثرہ علاقوں میں جاکر جب ہندووں اور مسلمانوں سے گفتگو کی تو انہوں نے ایک زبان میں یہی بات کہی کہ حملہ اور مارکاٹ کرنے والے ان کی بستی کے نہیں تھے تو کیا اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ فساد برپا کرنے کے لئے باہر سے لوگوں کو لایا گیا تھا اور کیا یہ پولیس کا فرض نہیں ہے کہ وہ ان کی شناخت کرے، لوگ اسے انٹیلی جنس کی ناکامی قرار دیتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ سرکار اور اس کی پوری مشینری کی ناکامی ہے شاید یہی وجہ ہے کہ اب تک کسی کی جواب دہی طے نہیں ہوئی ہے، دہلی پولیس براہ راست وزارت داخلہ کو رپورٹ کرتی ہے اور اگر وہ ناکام ہوئی ہے تو اس کی ذمہ داری داخلہ سکریٹری اور وزیر داخلہ کو اخلاقی طور پر لینی چاہیے مگر شاید ان کے پاس وہ سیاسی اخلاق بھی نہیں بچا ہے جو انہیں اتنی بڑی انسانی تباہی پر شرمسار کرسکے، چنانچہ اب اس کی جگہ وزیرداخلہ ان فسادات کا الزام اپوزیشن پارٹیوں پر لگا رہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ دہلی میں اپوزیشن میں تو بی جے پی ہی ہے، کیا اس طرح کی باتیں وزیرداخلہ کی بوکھلاہٹ کاغماز نہیں ہیں امید افزا بات یہ ہے کہ ان بھیانک فسادات کے دوران بھی انسانیت اور ہندومسلم اتحاد زندہ رہا، اخبارات کی رپوٹیں بتاتی ہیں کہ فسادات کے دوران جگہ جگہ ہندوؤں نے مسلمانوں اور مسلمانوں نے ہندوؤں کو بچایا اگرچہ متعدد مسجدوں اور درگاہوں کی بے حرمتی ہوئی ہے مگر ایسی بھی خبریں ہیں کہ بہت سے علاقوں میں ہندوؤں نے بلوائیوں سے مسجدوں کی حفاظت کی اور بہت سے مقامات پر مسلمانوں نے انسانی زنجیر بناکر مندروں کی حفاظت کی ایسے بہت سے مسلمان اور ہندو ہیں جنہوں نے ایک دوسرے کو بچانے کے لئے اپنی جان کی بازی لگادی، مرنے والوں میں ہندو مسلمان دونوں شامل ہیں اور دونوں کی املاک کونقصان پہنچا ہے لیکن مسلمانوں کا جانی اور مالی نقصان زیادہ ہوا ہے۔


شاید فسادات برپا کرنے والوں کا مقصد بھی یہی تھا کہ مسلمانوں کو اقتصادی ومعاشی طور پر تباہ و برباد کر دیا جائے جس میں وہ کسی حد تک کامیاب رہے اب جانچ کی خانہ پری ہوگی اور ہمیشہ کی طرح ان فسادات کی ذمہ داری بھی مسلمانوں کے سرڈال کر انصاف کے تقاضوں کو پورا کر دیا جائے گا، لیکن ان فسادات کے ذریعہ انسانیت کے بدن پر جو زخم لگائے گئے ہیں وہ شاید کبھی نہیں بھرسکیں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔