سپریم کورٹ کے معروف وکیل احتشام ہاشمی کا انتقال، ’مظلوموں کی آواز خاموش ہو گئی!‘

احتشام ہاشمی فرقہ وارانہ تشدد کے متاثرین اور بغیر فیس کے مقدمات لڑنے کے لیے مشہور تھے، ان کا محض 37 سال کی عمر میں انتقال ہو گیا

<div class="paragraphs"><p>تصویر سوشل میڈیا</p></div>

تصویر سوشل میڈیا

user

قومی آوازبیورو

بھوپال: سپریم کورٹ کے معروف وکیل اور انسانی حقوق کے کارکن احتشام ہاشمی کا جمعرات کی صبح نئی دہلی میں حرکت قلب کے بند ہونے سے انتقال ہو گیا، ان کی عمر 37 سال تھی۔ رپورٹ کے مطابق احتشام کو دل کا دورہ پڑنے کے بعد اسپتال لے جایا گیا، جہاں انہیں مردہ قرار دے دیا گیا۔ مدھیہ پردیش کے ساگر ضلع سے تعلق رکھنے والے ہاشمی ایک کیس کے سلسلے میں نئی دہلی میں تھے۔

انسانی حقوق کے مقدمات لڑنے کے لیے مشہور، ہاشمی کے اچانک انتقال کی خبر نے ان کے دوستوں اور جاننے والوں کے لیے صدمہ پہنچایا ہے۔ ٹو سرکل ڈاٹ نیٹ پر شائع ایک رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ میں پریکٹس کرنے والے احتشام ہاشمی کے ساتھی علی زیدی کا کہنا ہے کہ ہاشمی ان چند نوجوان وکلا میں سے ایک تھے جو ہمیشہ انصاف کے لیے کھڑے رہے۔

ایڈوکیٹ زیدی نے کہا ’’وہ ضرورت مندوں کو مفت قانونی امداد فراہم کرتے تھے۔ انہوں نے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں میں مفت کیس لڑ کر مسلم کمیونٹی کے لیے بہترین کام انجام دیا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہماری وکیل برادری کی ریڑھ کی ہڈی کھو گئی ہے اور لوگوں نے اپنی امید کھو دی ہے۔‘‘


ہاشمی نے سی اے اے مخالف مظاہروں کے دوران اتر پردیش کے مسلم متاثرین کے لیے جدوجہد کی اور 2020 کے دہلی فسادات کے متاثرین کی بھی نمائندگی کی۔ انہوں نے کئی فیک فائنڈنگ تحریکوں میں حصہ لیا۔ انہوں نے حال ہی میں کھرگون اور کرولی میں مذہبی تشدد کے مقامات کا دورہ کیا تھا اور متاثرین کو قانونی مدد فراہم کر رہے تھے۔

جنوری 2020 میں انہوں نے سپریم کورٹ میں مفاد عامہ کی عرضی (پی آئی ایل) دائر کی، جس میں انٹرنیٹ کی بندش کو غیر آئینی، غیر قانونی اور ناقابل نفاذ قرار دینے کا مطالبہ کیا۔ عرضی میں ہندوستان میں، خاص طور پر سی اے اے مخالف مظاہروں کے پس منظر میں، صوابدیدی انٹرنیٹ بندش پر روک لگانے کا مطالبہ کیا گیا۔

ہاشمی نے ایک مسلمان چوڑی فروش تسلیم علی کو ضمانت دلانے میں کامیابی حاصل کی، جسے اگست 2021 میں مدھیہ پردیش کے اندور میں چھیڑ چھاڑ، جعلسازی اور دھوکہ دہی کے الزامات میں مارا پیٹا گیا اور جیل بھیج دیا گیا۔ اپنے ضمانتی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ علی کا کوئی مجرمانہ پس منظر نہیں تھا۔

ہاشمی نومبر 2021 میں تریپورہ میں فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کا حصہ تھے جس نے ریاست میں مسلم مخالف تشدد کو اجاگر کیا۔ دو وکلا جو حقائق تلاش کرنے والی ٹیم کا حصہ تھے، بعد میں ان پر تریپورہ پولیس کے ذریعہ سخت غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔


ہاشمی کے پاس مدھیہ پردیش کے ہر ضلع میں وکلا کی ایک ٹیم تھی۔ انہوں نے ملک میں نفرت انگیز تقاریر کے معاملات کو دیکھنے کے لیے ایک گروپ قائم کیاا تھا۔ ہاشمی نے ضرورت مندوں کی مدد کے لیے اندور میں ہفتہ وار قانونی بنچ قائم کی تھی۔

ایڈوکیٹ ہاشمی کے ساتھ کام کرنے والے ریحان اس وقت ساکت رہ گئے جب انہوں نے ان کے انتقال کی خبر سنی۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی اس خوفناک خبر پر یقین نہیں کرنا چاہتا۔ ریحان نے کہا ’’ایڈوکیٹ ہاشمی منفرد تھے کیونکہ کوئی بھی کمیونٹی کے ساتھ اس طرح کھڑا نہیں ہوا جس طرح وہ کھڑے رہے۔ وہ غریبوں کے لیے لڑتے تھے اور انہیں تسلی بھی دیتے تھے۔ ان کا انتقال مسلم کمیونٹی کے لیے ایک بڑا نقصان ہے۔‘‘

مدھیہ پردیش سے ہاشمی کے ایک دوست نے بتایا کہ ہاشمی انسانیت کے وکیل تھے، جنہوں نے ہر جگہ لوگوں کی خدمت کی، چاہے وہ سی اے اے مخالف مظاہرین ہوں، ہلدوانی، کھرگون کے لوگ ہوں، اندور کا چوڑی فروش ہو یا کوئی اور، انہوں نے سب کی مدد کی۔‘‘

مسلم کمیونٹی میں بہت سے لوگوں کے لیے ایڈوکیٹ ہاشمی مظلوموں کی آواز تھے اور ان کا کہنا ہے کہ آج مظلوں کی آواز خاموش ہو گئی ہے۔ ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن سول رائٹس (اے پی سی آر) کے کارکن زید پٹھان نے کہا کہ ہاشمی ایک مہربان شخص تھے جنہوں نے (مسلم مخالف) تشدد کے معاملات میں اپنے دم پر مقدمے لڑے۔ وہ کسی فون کال یا اس میں شامل ہونے کی دعوت کا انتظار نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے تریپورہ، آسام اور دہلی میں دوسروں کے ساتھ بھی کیس لڑے۔‘‘


بھوپال کے رکن اسمبلی عارف مسعود نے کہا کہ انہیں ہاشمی کے انتقال کی خبر سے سخت صدمہ پہنچا ہے۔ انہوں نے کہا ’’وہ مظلوموں کی آواز تھے۔ میں نے کل ان سے آخری بات کی تھی۔ انہوں نے مجھے ایک پیغام دیا تھا، اللہ حافظ۔ اپنا خیال رکھنا۔ کتنا افسوسناک ہے کہ یہ ہماری آخری بات چیت تھی۔‘‘

سینئر صحافی شمس الرحمان علوی نے کہا کہ ہاشمی ایک ایسے وکیل تھے جنہوں نے مظلوموں اور ان لوگوں کی آواز اٹھائی جو ناانصافی کا شکار ہوئے لیکن ان کے پاس لڑنے کے لیے پیسے اور وسائل کی کمی تھی۔ علوی نے کہا ’’ان کا انتقال شہریوں کے لیے ایک نقصان ہے کیونکہ وہ اکثر لوگوں کی مدد کے لیے پہنچ جاتے تھے اور اکثر اپنا پیسہ بھی خرچ کرتے تھے۔‘‘

ہاشمی کو جمعہ (10 فروری) کی صبح مدھیہ پردیش کے ساگر ضلع کے ان کے آبائی شہر گوپال گنج میں سپرد خاک کر دیا گیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔