نوپور شرما کو سپریم کورٹ کی پھٹکار پر علمائے دین کا رد عمل ’معافی اور سزا دونوں ضروری‘

توہین رسالتؐ کی مرتکب نوپور شرما کو سپریم کورٹ نے پھٹکار لگاتے ہوئے ملک سے معافی مانگنے کو کہا ہے، اس پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے علمائے دین نے کہا کہ معافی مانگنے کے ساتھ قانونی سزا بھی ضروری ہے

نوپور شرما، تصویر آئی اے این ایس
نوپور شرما، تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آوازبیورو

نئی دہلی: پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والی نوپور شرما کو آج عدالت عظمیٰ میں سخت پھٹکار لگائی گئی اور کہا گیا کہ آپ کے بیان سے ملک میں آگ لگ گئی ہے اور آپ کو ٹی وی پر ملک سے معافی مانگی چاہئے۔ سپریم کورٹ کے اس تبصرہ کا ملی تنظیموں اور علمائے دین نے خیرمقدم کیا ہے لیکن ساتھ ہی کہا ہے کہ نوپور شرما کے معافی مانگنے کے ساتھ ہی اس کو قانون سزا بھی دینا ضروری ہے تاکہ مستقبل میں کوئی دوسرا شخص اس طرح کی حرکت سے ماحول خراب نہ کرے۔

نیوز پورٹل ’آج تک‘ پر شائع رپورٹ کے مطابق جماعت اسلامی ہند کے نائب صدر محمد سلیم انجینئر نے کہا کہ نوپور شرما کے معاملہ میں سپریم کورٹ کے تبصرہ سے امید کی کرن روشن ہوئی ہے اور ہم اس کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہہ نوپور شرما کو معافی تو مانگنی ہی چاہئے لیکن اس سے ان کا جرم کم نہیں ہو جاتا۔ انہوں نے جس جرم کا ارتکاب کیا ہے اس کی سزا ملنی چاہئے تاکہ کوئی اور مستقبل میں ایسی غلطی نہ کرے۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے خود کہا ہے کہ نوپور شرما کے بیان سے ملک کا ماحول خراب ہوا ہے لیکن اتنے دنوں کے بعد بھی اتبھی تک ان کی گرفتاری نہیں ہونا اپنے آپ میں سوال ہے۔ نوپور شرما کی گرفتار نہیں ہونے سے سماج میں غلط پیغام جا رہا ہے۔ لہذا پہلے نوپور شرما کو گرفتار کیا جانا چاہئے اور قانونی سزا ملی چاہئے۔


وہیں، دہلی کی فتحپور سیکری مسجد کے شاہی امام مفتی مکرم احمد نے کہا کہ سپریم کورٹ کا بتصرہ قابل استقبال ہے، عدالت کے تبصرہ کرنے سے پہلے ہی نوپور شرما کو معافی مانگ لینا چاہئے تھی، ایسا ہوتا تو ملک کا ماحول خراب نہیں ہوتا۔ تاہم ابھی دیر نہیں ہوئی ہے۔ عدالت کی مداخلت کے بعد ہی معافی مانگ لے تو بھی بہتر اقدام ہوگا۔ اس سوال پر کہ کیا مسلمان نوپور شرما کی معافی کو قبول کریں گے، مفتی مکرم نے کہا کہ مسلمانوں کے پاس معاف نہ کرنے کے علاوہ اور چارہ ہی کیا ہے؟

شعیہ عالم دین مولانا محسن تقوی نے کہا کہ عدالت کا تبصرہ بہت مناسب ہے۔ نوپور شرما اگر پہلے ہی معافی مانگ لیتی تو معاملہ اتنا آگے نہیں بڑھتا۔ نوپور شرما اگر معافی مانگتی ہے تو مسلمانوں کو معاف کر دینا چاہئے کیونکہ اسلام میں معاف کرنے کا جذبہ ہمیشہ سے رہا ہے۔ نوپور شرما نے پیغمبر اسلامؐ کی زندگی پر لکھی کتابیں پڑھی ہوتیں تو وہ ہرگز ایسا بیان نہیں دیتی۔

خیال رہے کہ نوپور شرما کی جانب سے ملک کی سپریم کورٹ میں عرضی دائر کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے، اس لیے وہ مقدمات کی سماعت کے لیے ملک کے مختلف حصوں میں نہیں جا سکتیں۔ ایسے میں تمام مقدمات کو دہلی منتقل کر دینا چاہیے۔ اس پر سپریم کورٹ نے انہیں کوئی ریلیف نہیں دیا بلکہ معافی مانگنے کو کہا۔ عدالت نے نوپور شرما کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ ان کے ایک بیان کی وجہ سے ماحول خراب ہو گیا۔ یہی نہیں، عدالت نے کہا کہ نوپور شرما نے معافی مانگنے میں تاخیر کی اور ان کی وجہ سے ہی افسوسناک واقعات رونما ہوئے۔


سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ سارا تنازعہ ایک ٹی وی بحث سے پھیلا ہے اور انہیں اسی ٹی وی پر جانا چاہئے اور پورے ملک سے معافی مانگنی چاہئے۔ سپریم کورٹ نے اس دوران دہلی پولیس کے رویہ پر بھی سوال اٹھایا ہے اور کہا ہے کہ نوپور شرما کے خلاف کئی مقدمات درج ہونے کے بعد بھی گرفتاری کیوں نہیں ہوئی۔ عدالت نے کہا کہ نوپور شرما کو کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن ان کے بیانات ضرور ملک کے لئے خطرہ بن گئے ہیں؟

عدالت نے یہ بھی کہا کہ ادے پور میں کنہیا لال کے قتل کی وجہ بھی ان کا بیان ہی بنا ہے۔ عدالت نے کہا کہ کسی بھی پارٹی کے ترجمان ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کی طرف سے کچھ بھی بولا جائے۔ عدالت نے پیغمبر اسلامؐ کے خلاف ریمارکس کے لیے نوپور شرما کی معافی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ بہت دیر سے مانگی گئی اور ان کے ریمارکس سے افسوسناک واقعات پیش آئے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔