نفرت انگیز تقاریر سے نجات کے لیے مذہب کو سیاست سے علیحدہ کرنا ضروری: سپریم کورٹ

عدالت عظمیٰ نے کہا ’’لوگ سماج کے ارکان کی بے عزتی نہیں کرنے کا عہد کیوں نہیں کر سکتے؟ ریاست کمزور اور بے بس ہو چکی ہے اور وقت پر کام نہیں کرتی‘‘

سپریم کورٹ/ تصویر آئی اے این ایس
سپریم کورٹ/ تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آوازبیورو

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے نفرت انگیز تقریر کے واقعات پر ایک بار پھر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے بدھ کو کہا، ’’مذہب کا سیاست کے ساتھ ملاپ نفرت انگیز تقریر کا ذریعہ ہے۔ سیاست دان اقتدار کے لیے مذہب کے استعمال کو تشویشناک بنا دیتے ہیں۔ اس عدم رواداری اور فکری کمی سے ہم دنیا میں نمبر ون نہیں بن سکتے۔ اگر آپ سپر پاور بننا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے آپ کو قانون کی حکمرانی کی ضرورت ہے۔‘‘

سپریم کورٹ نے کہا کہ ’’پاکستان چلے جاؤ! جیسے بیانات سے مستقل طور پر وقار کو زک پہنچائی جاتی ہے۔ اب ہم کہاں پہنچ گئے ہیں؟ ایک زمانے میں ہمارے ہاں نہرو، واجپائی جیسے مقررین ہوا کرتے تھے، اب لوگوں کا ہجوم فارغ عناصر کو سننے کے لیے آتا ہے۔‘‘

سپریم کورٹ نے کہا، ’’لوگ یہ عہد کیوں نہیں لے سکتے کہ وہ سماج کے ارکان کی تذلیل نہیں کریں گے؟ ریاستیں نامرد، بے اختیار ہو چکی ہیں اور وقت پر عمل نہیں کرتیں۔ اگر یہ خاموش ہیں تو انہیں ریاستیں ہونے کا کیا حق ہے؟‘‘

سپریم کورٹ نے کہا کہ ’’نفرت انگیز تقاریر سے نجات پانے کے لیے مذہب کو سیاست سے علیحدہ کرنا ہوگا۔ باہمی بھائی چارے میں دراڑیں آ گئی ہیں۔ جب تک سیاست کو مذہب سے الگ نہیں کیا جاتا، اس پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔ نفرت انگیز تقریر خالصتاً 'سیاست' ہے۔‘‘


جسٹس کے ایم جوزف اور بی وی ناگارتنا کی بنچ نے کہا ’’ریاستیں سماج میں نفرت انگیز تقریر کے جرم کو کم کرنے کے لیے ایک طریقہ کار کیوں نہیں بنا سکتی؟ پہلے بھائی چارے کا بہت خیال رکھا جاتا تھا لیکن اب مجھے یہ کہتے ہوئے افسوس ہو رہا ہے کہ اس میں دراڑیں آ رہی ہیں۔ بڑا مسئلہ یہ ہے کہ سیاست دان مذہب کو استعمال کرتے ہیں۔ ملک میں مذہب اور سیاست ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ مذہب اور سیاست کو علیحدہ کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

بنچ نے نفرت انگیز تقاریر کے معاملات میں ریاستوں کی بے عملی پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا کہ ہر عمل کے لیے ایک مخالف ردعمل ہوتا ہے۔ تاہم سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے اس پر اعتراض کیا اور کہا ’’اس کا مطلب یہ ہوگا کہ عدالت اسے جائز سمجھ رہی ہے۔‘‘ جسٹس جوزف نے کہا ’’ان لوگوں (دوسرے مذاہب کے) نے یہاں رہنے کا انتخاب کیا ہے، ہم سب بھائی بہن کی طرح ہیں۔‘‘


سپریم کورٹ کی بنچ توہین عدالت کی درخواست کی سماعت کر رہا تھا۔ بنچ نے مہاراشٹر حکومت سے کہا کہ وہ سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود ہندو تنظیموں کی طرف سے نفرت انگیز تقاریر پر قابو پانے میں ناکام ہونے پر اس کے خلاف دائر توہین عدالت کی درخواست کا جواب دے۔ اگلی سماعت 28 اپریل کو ہوگی۔

سماعت کے دوران سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ عرضی گزار نے نفرت انگیز تقاریر کے چنیدہ معاملات پیش کیے ہیں۔ درخواست گزار اپنی ریاست (کیرالہ) سے ایسی مثالیں نہیں لا رہا ہے۔ عدالت کو کیرالہ کیس کا ازخود نوٹس لینا چاہیے۔ انہوں نے ایک ویڈیو کلپ بھی دکھانے کی اجازت مانگی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */