بابری مسجد انہدام معاملے میں اڈوانی، اوما، جوشی سمیت سبھی ملزمین کو راحت، بری کیے جانے سے متعلق فیصلے کے خلاف عرضی خارج

عرضی کی مخالفت کرتے ہوئے سی بی آئی نے کہا کہ اپیل کرنے والے متنازعہ ڈھانچہ انہدام معاملے کے متاثرین نہیں ہیں، لہٰذا سی آر پی سی کی دفعہ 372 کے تحت اپیل نہیں کر سکتے۔

اوما بھارتی، مرلی منوہر جوشی اور لال کرشن اڈوانی
اوما بھارتی، مرلی منوہر جوشی اور لال کرشن اڈوانی
user

قومی آوازبیورو

الٰہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے بدھ کو بی جے پی کے سینئر لیڈر لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور اوما بھارتی سمیت بابری مسجد انہدام معاملے میں 32 ملزمین کو بڑی راحت دیتے ہوئے انھیں بری کرنے کے اسپیشل سی بی آئی کورٹ کے فیصلے کے خلاف داخل کی گئی عرضی خارج کر دی۔

جسٹس رمیش سنہا اور سروج یادو کی صدارت والی بنچ نے ایودھیا کے رہنے والے حاجی محمود احمد اور سید اخلاق احمد کی عرضی خارج کر دی۔ عرضی میں بابرہ مسجد انہدام کے ملزمین بی جے پی کے سینئر لیڈران لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی، ونئے کٹیار، برج موہن شرن سنگھ، اتر پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ آنجہانی کلیان سنگھ اور سادھوی رتمبرا سمیت 32 لیڈروں کو عدالت کے ذریعہ بری کیے جانے کے فیصلے کو چیلنج پیش کیا گیا تھا۔


اس معاملے میں شروع میں ریویو پٹیشن عرضی داخل کی گئی تھی۔ اسے عدالت نے مجرمانہ اپیل میں تبدیل کرنے کا حکم دیا تھا۔ معاملے میں سی بی آئی کی طرف سے بھی اعتراض داخل کیا گیا تھا۔ سی بی آئی کا کہنا تھا کہ اپیل کرنے والے متنازعہ ڈھانچہ گرائے جانے کے اس معاملے کے متاثرین نہیں ہیں۔ لہٰذا سی آر پی سی کی دفعہ 372 کے ضابطوں کے تحت موجودہ اپیل داخل نہیں کر سکتے۔ جبکہ عرضی دہندگان کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے میں متنازعہ ڈھانچہ گرائے جانے کی وجہ سے متاثرہ فریق میں شامل ہیں۔ لہٰذا انھیں سیشن عدالت کے فیصلے کو چیلنج پیش کرنے کا حق ہے۔

واضح رہے کہ کارسیوکوں کے ذریعہ 6 دسمبر 1992 کو ایودھیا میں متنازعہ ڈھانچہ کو منہدم کر دیا گیا تھا۔ طویل قانونی لڑائی کے بعد 30 ستمبر 2020 کو لکھنؤ کی خصوصی سی بی آئی عدالت نے مجرمانہ مقدمہ میں فیصلہ سنایا اور سبھی ملزمین کو بری کر دیا تھا۔ ٹرائل جج نے نیوز پیپر کٹنگ، ویڈیو کلپنگ کو ثبوت کے طور پر ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ ہائی کورٹ میں ذیلی عدالت کے فیصلے کے خلاف عرضی دہندگان نے دلیل دی تھی کہ عدالت نے ملزمین کو قصوروار نہیں ٹھہرانے میں غلطی کی ہے، جب کہ مناسب ثبوت ریکارڈ میں تھے۔ اپیل دہندگان نے الزام لگایا کہ ٹرائل جج نے صحیح منظرنامہ میں سازش کے ثبوتوں کو نظر انداز کیا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔