دلوں کے رشتے: سارا جہاں سب کی قسمت میں ہو، کیا ممکن ہے؟ 

سوال اٹھتا ہے کیا سارا جہاں سب کی قسمت میں ہو، ممکن ہے؟ یہ چاہتیں ادنی ہوں یا اعلی، مگر ٹھیس تو لڑکی کے دل پر ہی لگتی ہے۔ جب وہ محسوس کرتی ہے کہ اس کے والدین کیا لمبی چوڑی رقم کا انتظام کر پائیں گے؟

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

زیب النساء

امیدوں کے گھروندں میں میرب نے اپنے ان کہے خواب تو سجا لئے تھے مگر وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ حسرتیں، خواہشوں کی آندھی میں ایک پل میں اس کے خوابوں کے گھر کا شیرازہ بکھیر دے گی۔ خواہشات کی تکمیل انسان کو اخلاقی معیار سے اٹھا کر اب وہاں کھڑا کر رہی ہے جہاں اس کی سوچ میں صرف پانے کی چاہت ہے۔ کیسے بھی ہو، کچھ بھی ہو اپنے عہدے کا معیار اور پھر اسی کی بناء پر واپسی ہونی بھی لازمی ہے۔

جہیز کی شکل میں، کیا بدلا اور کیا نہیں اور کیوں نہیں؟ ان سب سوالوں کا جواب ڈھونڈنے میں انسان کا صرف وقت ہی ضائع ہوگا۔ بس ہم اتنا کہیں گے معاشرے کی ذہنیت میں تبدیلی نے اس شادی نام جیسی بابرکت رسم کو پیسوں کے ترازو میں لے جاکر رکھ دیا، شاید آج کا انسان یا تو غافل ہے یا پھر وہ بھول گیا ہے، نکاح برکت ہے۔ ’’اسٹیٹس سبل‘‘ یعنی جتنا اعلی مقام ہوگا اتنی ہی شان و شوکت سے شادی کی رسموں کی ادائیگی ہوگی۔


پر سوال یہ اٹھتا ہے کیا سارا جہاں سب کی قسمت میں ہو، ممکن ہے؟ یہ چاہتیں ادنی ہوں یا اعلی، مگر ٹھیس تو ایک لڑکی کے دل پر ہی لگتی ہے۔ جب وہ محسوس کرتی ہے کہ اس کے والدین کہاں سے لمبی چوڑی رقم کا انتظام کر پائیں گے؟ اس لمحہ تعلیم یافتہ، صلاحیتوں کے باوجود ایک لڑکی خود کو کتنا مجبور پاتی ہے اس کا اندازہ صرف اسی کو ہوتا ہے۔ وہ ڈگریاں صرف کاغذ پر لکھے بے معنی لفظ بن کر رہ جاتی ہیں۔ جیسے کہ میرب! جو صلاحیتوں کا آئینہ ہوتے ہوئے بھی ٹوٹ کر بکھر گئی۔ وقت کی ستم ظریفی نے اسے ایسے موڑ پر لاکر کھڑا کیا جہاں وہ اپنی پیدائش کو ہی بوجھ سمجھ رہی تھی۔ آج وہ خود سے سوال کر رہی تھی کیا تعلیم، صلاحیتیں سب دولت کے آگے بے معنی ہوجاتی ہیں؟ کیا کاغذ کے نوٹوں کی اتنی اہمیت ہے انسانی زندگی کے آگے۔

جی ہاں! یہ ایک میرب کی داستان نہیں۔ آج دنیا میں ان گنت میرب ہوں گی جن کے والدین کے پاس دینے کے لئے لاکھوں کا جہیز نہیں ہوتا۔ اسی بات پر ہم اب چند روز پہلے کا آنکھوں دیکھا واقعہ بیان کرنا چاہیں گے۔ ’’رشتے‘‘ کی سرگوشیاں اپنے آنے کا احساس کچھ یوں کروا رہی تھی۔ ایک گھر میں، جس کی ایک چھوٹی سی جھلک پیش ہے۔ دروازے پر جیسے ہی دستک ہوئی والدین کی مسرتوں کو، ان کی آرزوؤں کو’’امیدوں‘‘ نے اپنے نام کا پیرہن پہنا دیا۔


رسم و رواج کے تحت ایک ماں نے بیٹی کو لباس میں سجا کر رشتے والوں کے سامنے بٹھا دیا۔ تو ادھر والد نے سجدے میں سر جھکا دیا۔ لرزتے دل سے یہ دعا کرنے لگا۔ ’’اے رب! کرتا رہا میں ہر حال میں تیرا شکر ادا، آج تیرے حکم سے جو آیا یہ رشتہ، پر ہوں غمگین یہ سوچ کر میرا دامن ہے خالی۔ مگر اس کے نصیب میں جو ہوگا لکھا، وہی دے کر کروں گا اس کو وداع۔ دعا ہوئی ختم۔ اب چلا مہمان داری کا سلسلہ۔ لڑکے کی والدہ بولی، واللہ! بیٹی ہے آپ کی خوب سیرت بھی اور خوبصورت بھی، نہیں ہے اس میں کوئی شک۔ خوشی ہے ہمیں آج اس بات کی آپ نے بیٹی کو دی اعلی تعلیم کے ساتھ بہترین تربیت۔ برا نہ مانیں تو کہیں گے ہم آپ سے آج ہم نے اپنے بیٹے کی تعلیم پرلگایا مال و دولت، تب جاکر بنا یہ افسر۔ بس اتنی سی التجا ہے آج ہماری مکان نہ سہی۔ تو دیدیں ایک عدد سواری۔

پھر اگلا جملہ کچھ یوں تھا، ’’معاف کیجئے گا، یہ نہ سمجھیے گا ہم مانگ رہے ہیں جہیز۔ باتوں کا سلسلہ کچھ دیر یہیں تھم سا گیا۔ ایک گہری خاموشی چھا گئی۔ ماں کا دل ڈوبا۔ تو باپ پرغشی چھائی۔ وہ سوچنے لگا، معتبر انسان کی سوچ نے کیا گل کھلایا۔ آج جنہیں سمجھتا تھا فرشتہ وہی بن گئے سنگین دھوکہ‘‘۔ اب لڑکے والوں نے لی وداع، تو محسوس ہوا جیسے والدین کے دلوں کے ساتھ ساتھ ایک بیٹی کا دل بھی ٹوٹ کر بکھرا۔


بہر حال یہ دو لفظوں کی کہانی نہیں۔ جو پڑھی پھر ایک فلسفہ سمجھ کر درکنار کردیا۔ یہ اصل زندگی میں کسی نہ کسی گھر میں آئے دن پیش آنے والا واقعہ ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ایک لڑکی کی شادی ایسے میزان میں رکھ کر تولی جاتی ہے جس کا پلڑا جدھر بھاری ہوا، اسی دروازے سے ڈولی اٹھی۔ یہ رسموں، رواجوں کے اصول، لین دین کی رسمیں ایک کارواں بن کر والدین کو ایک طویل درد کا مسافر بناتی جا رہی ہیں، جہاں وہ ہر پل گھٹ گھٹ کر جی رہے ہیں۔ بوسیدہ سوچ، دولت کی چاہ ان سب نے ایک ایسا راستہ فراہم کیا جس پر چلنے کا ہر انسان خواہش مند ہے۔

کہنے کا مطلب یہی ہے ایک نے لاکھوں کا جہیز دیا، تو دوسرا کیسے پیچھے رہے۔ فلیٹ نہ سہی کار ہی سہی۔ پھر شادی کی یادگاریاں بھی ہوں۔ مثلاً، فلاں نے شادی اگر ایک بڑے ہوٹل میں ارینج کی، تو لازمی ہے دوسرا کسی عالیشان جگہ کرنا چاہے گا۔ یہ ایک ایسی دوڑ ہے جس میں کسی کو بھی شکست منظور نہیں ہے۔ پر سوال اٹھتا ہے اس کا ذمہ دار کون ہے؟


شاید معاشرہ ہی، کیوں کرتے ہیں یہ سب؟ کس کو دکھانا ہوتا ہے؟ زندگی کی حقیقت کو بے رنگ، بے نور کس نے بنایا۔ اور آج اس سے بھی بڑا مسئلہ زمانے کی تیز رفتار نے یہ بھی احساس کرایا، اب ایک کمانے والا کافی نہیں۔ جب تک دوسرا بھی نوکری نہ کرے۔ تو پھر لازمی ہے ہم سفر کی تلاش ایک نوکری پیشہ کی ہی ہوتی ہے۔ اسی سوچ کی تبدیلی سے ’’ورکنگ وومین‘‘ کو زیادہ ترجیح ملی۔ ورکنگ وومین کے ’’ورکنگ کپل‘‘ بنتے ہی کریچ کا اضافہ بھی اس حصہ کی اہم کڑی بنا۔

نتیجتاً نقصان آنے والی نئی نسل کا ہوا۔ خاندان ٹکڑوں میں بنٹے۔ ساجھے چولہے کا رواج ختم ہوا، بڑے بزرگ کی نصیحت سے بچے دور ہوئے۔ والدین کے نوکری پیشہ ہونے سے بچے تربیت سے غافل، سو الگ۔ ویسے اگر کہیں تو غلط نہ ہوگا، ان ساری وجوہات پر سلسلہ وار غور کیا جائے تو دل یہی کہے گا، جہیز نام کی بیماری خود ہی تو پالی ہوئی ہے انسان نے۔ موضوع کے اختتام پر آج بس اتنا ہی کہیں گے۔ رشتے دلوں کے ہوتے ہیں ساز و سامان ان دل کے رشتوں کے آگے کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 04 Aug 2019, 9:10 PM