غیر منطقی فیصلے سنانے سے باز آئیں، سپریم کورٹ کی عدالتوں کو نصیحت

جسٹس ایم آر شاہ اور جسٹس بی وی ناگارتنا کی بنچ نے منگل کے روز الہ آباد ہائی کورٹ کی طرف سے ایک قتل کے ملزم کو رہا کئے جانے کے خلاف دائر کی گئی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے یہ تبصرہ کیا

سپریم کورٹ کی تصویر، آئی اے این ایس
سپریم کورٹ کی تصویر، آئی اے این ایس
user

قومی آوازبیورو

نئی دہلی: سپریم نے تمام عدالتوں کو نصیحت کی ہے کہ وہ غیر منطقی حتمی فیصلہ سنانے سے باز رہیں۔ جسٹس ایم آر شاہ اور جسٹس بی وی ناگارتنا کی بنچ نے منگل کے روز الہ آباد ہائی کورٹ کی طرف سے ایک قتل کے ملزم کو رہا کئے جانے کے خلاف دائر کی گئی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے یہ تبصرہ کیا۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ سال 1984 میں بھی اس معاملہ میں سخت اعتراض ظاہر کیا گیا تھا اور اس کے بعد سے لگاتار دوہرایا جا رہا ہے کہ غیر منطقی فیصلے نہ سنائے جائیں، اس کے باوجود فیصلے کا ایک ہی حصہ سنا دیا جاتا ہے اور کوئی دلیل بھی پیش نہیں کی جاتی۔

بنچ نے کہا کہ غیر منطقی فیصلہ سنانے کے اس چلن پر روک لگانی ہوگی۔ عدالت عظمیٰ نے سماعت کے دوران مزید مشاہدہ کیا کہ ہائی کورٹ کے فیصلے کا منطقی حصہ تقریباً 5 مہینے بعد جاری کیا گیا۔


ریاستی حکومت کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل نے کہا کہ اپیل پر سماعت 30 مارچ 2019 کو شروع ہوئی تھی۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے نچلی عدالت کے حکم کو کالعدم قرار دیتے ہوئے قتل کے ملزم کو جیل سے رہا کرنے کا حکم جاری کیا۔ تاہم ہائی کورٹ نے پانچ ماہ بعد منطقی فیصلہ اور حکم پانچ ماہ بعد جاری کیا۔

سپریم کورٹ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو منسوخ کرتے ہوئے نئے سرے سے قانون کے مطابق اس پر فیصلہ سنائے۔ سپریم کورٹ نے چھ ماہ میں فیصلہ سنانے کا کہا ہے۔ بنچ نے مشاہدہ کیا کہ جب تک کیس میں دائر اپیل ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے، ملزم کو خود سپردگی کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور اسے ضمانت پر رہا کیا جا سکتا ہے۔

سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ الزام ثابت ہونے کی صورت میں ملزم کو فیصلہ سنائے جانے کے دو ہفتوں کے اندر سرنڈر کرنا ہوگا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔