گایوں کےلیے بنیں گے ’ہاسٹل‘، مودی حکومت کو بھیجی گئی سفارش!

راشٹریہ کام دھینو کمیشن نے مرکزی وزارت برائے شہری ترقی کو خط لکھنے کے علاوہ کئی ریاستی حکومتوں اور میونسپل کارپوریشنوں کو اس سلسلے میں چٹھی لکھی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

’جگہ کی کمی کے سبب شہروں میں گایوں کو رکھنا آسان نہیں ہوتا۔ اگر نگر پالیکا گایوں کے لیے ہاسٹل قائم کرنے کے لیے جگہ الاٹ کر دیتی ہے تو 50-25 لوگ ساتھ مل کر ہاسٹل بنانے کا کام کر سکتے ہیں۔ ان ہاسٹلوں کے رکھ رکھاؤ کے لیے وہ ادائیگی بھی کر سکتے ہیں اور اپنے خود کے مویشیوں کے دودھ کا استعمال بھی کر سکتے ہیں۔‘‘ یہ بیان راشٹریہ کام دھینو کمیشن کے سربراہ ولبھ بھائی کتھیریا کا ہے جو انھوں نے انگریزی روزنامہ ’ٹائمز آف انڈیا‘ سے بات چیت کے دوران دیا۔ انھوں نے بتایا کہ ’’میں پہلے ہی وزارت برائے شہری ترقیات کو گائے ہاسٹل کے لیے ہدایات تیار کرنے کی گزارش کر چکا ہوں، جسے شہری منصوبہ بندی ڈھانچہ میں شامل کیا جا سکتا ہے۔‘‘

اخبار کے مطابق کمیشن نے گایوں کے ہاسٹل کے لیے ایک تجویز تیار کی ہے اور مرکز کی مودی حکومت اور ریاستوں کو خاص طور سے اس کے لیے ہر شہر میں 15-10 جگہ الاٹ کرنے کی بات کہی ہے۔ یہ جگہ خصوصی طور پر ان لوگوں کے لیے الاٹ کیے جانے کی بات ہے جو صرف دودھ کے خرچ میں دلچسپی رکھتے ہیں او راس سے کمائی بھی کرتے ہیں۔


بتایا جاتا ہے کہ کمیشن نے مرکزی وزارت برائے شہری ترقی کو خط لکھنے کے علاوہ کئی ریاستی حکومتوں اور میونسپل کارپوریشنوں کو اس سلسلے میں چٹھی لکھی ہے۔ ان خطوط میں انھوں نے ان سے گائے ہاسٹل قائم کرنے کا عمل شروع کرنے کے لیے کہا ہے۔ چیئرمین نے خط میں لکھا ہے کہ اس طرح کے ہاسٹل کی سوچ گجرات میں کچھ دیہی علاقوں میں پہلے ہی کامیابی کے ساتھ استعمال کی جا چکی ہے۔

کمیشن کے چیئرمین ولبھ بھائی کتھیریا کا کہنا ہے کہ ’’اسے آسانی سے ملک بھر میں شہری علاقوں میں بنایا جا سکتا ہے۔ ان ہاسٹلوں کو ایسی زمین پر قائم کیا جا سکتا ہے جو نجی تاجروں کو کرایہ پر یا پٹّے پر دیا جا سکتا ہے۔ یہاں خواہش مند لوگ اپنی پسند کی گائے رکھ سکتے ہیں۔‘‘ انھوں نے مزید بتایا کہ ’’اگر گائے کا دودھ اس کے مالک کے استعمال سے زیادہ ہوتا ہے تو وہ دودھ فروخت بھی کر سکتے ہیں۔ گائے کے گوبر اور پیشاب کا استعمال کھاد بنانے اور ایسے ہاسٹلوں کے رکھ رکھاؤ کے لیے گوبر گیس پلانٹ کے ذریعہ پیسہ بھی کمایا جا سکتا ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 13 Nov 2019, 3:11 PM