پرسنل لاء بورڈ کی بے حسی نے خاتون خانہ کو شمع محفل بنا دیا!

راجدھانی دہلی کے رام لیلا میدان میں مسلم خواتین نے ہزاروں کی تعداد میں پہنچ کر مرکزی حکومت کے خلاف اپنی آواز ضرور بلند کی لیکن اس نے مسلم اداروں کی کارکردگی پر کئی سوال بھی کھڑے کیے۔

تصویر قومی آواز/ویپن
تصویر قومی آواز/ویپن
user

قومی آوازبیورو

آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے آج رام لیلا میدان میں دہلی کے مختلف خطوں سے ہی نہیں راجستھان، اتر پردیش، ہریانہ، حتیٰ کہ مدھیہ پردیش کے بھنڈ سے بھی خواتین اسلامی شریعت کو تحفظ فراہم کرنے کے مقصد سے جمع ہوئیں۔ یہ الگ بات ہے کہ جب ’قومی آواز‘ نے کچھ خواتین سے اس عظیم الشان تقریب کے بارے میں پوچھا تو وہ محض اتنا ہی بتا سکیں کہ ’’تین طلاق کے خلاف حکومت نے قانون کا جو مسودہ تیار کیا ہے وہ اسلامی شریعت کے خلاف ہے، لہٰذا ہم مرکزی حکومت کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے ہم سب جمع ہوئی ہیں۔‘‘ ان سے جب یہ پوچھا گیا کہ کیا آپ ’تین طلاق‘ کے اسلامی قانون سے واقف ہیں، یا حکومت نے جو قانون کا مسودہ تیار کیا ہے اس سے واقف ہیں؟ تو اکثر خواتین بغلیں جھانکتی ہوئی نظر آئیں۔ وہ صرف وہی باتیں کہہ رہی تھیں جو ان کے ہاتھوں میں موجود ’پلے کارڈ‘ پر لکھے ہوئے تھے، یعنی ’تین طلاق واپس لو‘،’شریعت میں مداخلت بند کرو‘، ’طلاق مخالف بل ہمیں منظور نہیں‘، ’اسلامی شریعت ہمارا اعزاز ہے‘ اور ’مسلم خواتین مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ساتھ ہیں‘ وغیرہ۔

تقریب میں ایک چھوٹے بچے کو گود میں اٹھائے اور کیری بیگ کھینچتے ہوئے جب ایک خاتون کرسی کی جانب بڑھ رہی تھی تو پوچھنے پر پتہ چلا کہ وہ بھنڈ سے اپنے شوہر کے ساتھ دہلی آئی ہے اور مودی حکومت کے ذریعہ پیش کردہ تین طلاق جیسے سیاہ قانون کے خلاف اپنا احتجاج درج کرنے پہنچی ہے۔ جب ان سے ’قومی آواز‘ نے یہ پوچھا کہ کیا ان کو لگتا ہے کہ اس عظیم الشان احتجاجی مظاہرہ کے بعد حکومت اپنا بل واپس لے لے گی؟ تو بات چیت سے خواندہ معلوم ہو رہی عاصمہ نے کہا کہ ’’ظاہری طور پر تومودی حکومت مسلم مخالف ہی کام کرتی رہی ہے اس لیے شاید وہ تین طلاق بل واپس نہ لے، لیکن یہ سوچ کر ہم خاموش نہیں بیٹھ سکتے۔ اس مظاہرہ سے برسراقتدار پارٹیوں کو یہ پیغام تو ضرور پہنچے گا کہ ہم اپنے حقوق کے لیے لڑنے کا مادّہ رکھتے ہیں۔‘‘

دہلی کے بھجن پورہ سے اپنی دو جوان بیٹیوں کے ساتھ تقریب میں مقررین کا خطاب بغور سن رہیں نسیمہ بھی مودی سے بہت ناراض نظر آتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’ہماری شریعت کے متعلق فیصلہ کرنے کا حق انھیں کس نے دیا ہے، ہمارا پرسنل لاء بورڈ ہمیں انصاف دلانے کے لیے کافی ہے۔‘‘ لیکن جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ کیا انھیں نہیں لگتا کہ پرسنل لاء بورڈ نے اس معاملے میں پہلے کوئی سرگرمی نہیں دکھائی جس کے وجہ سے تین طلاق سے متاثرہ کئی خواتین کو عدالت کی پناہ میں جانا پڑا؟ تو وہ کچھ دیر خاموش ہو جاتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ’’اگر کسی خاتون پر کوئی ظلم ہو رہا ہے تو پرسنل لاء بورڈ کو انصاف دلانا چاہیے ورنہ قصورواروں کا حوصلہ بلند ہوگا، لیکن حکومت کو بھی چاہیے تھا کہ وہ کوئی بھی مسودہ تیار کرنے سے پہلے مسلم تنظیموں سے مشورہ کرتی تاکہ اسلامی شریعت میں کوئی مداخلت نہ ہو۔‘‘

تقریب میں موجود ایک خاتون والنٹیرنے ’قومی آواز‘ کو ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ ’’یہاں موجود خواتین اسلامی شریعت کو تحفظ فراہم کرنے کے مقصد سے اکٹھا ہوئی ہیں اور یقیناً ان میں سے بیشتر کو مرکزی حکومت کے ذریعہ پیش کردہ تین طلاق بل کی مکمل جانکاری نہیں ہے، اور اسی لیے ملک کی کئی ریاستوں میں اس طرح کی تقریب منعقد کر کے انھیں حقیقت حال سے روشناس کرایا گیا اور آج رام لیلا میدان میں اس سلسلے کی آخری تقریب منعقد ہوئی ہے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’یہ درست ہے کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے تین طلاق پر ایسی سرگرمی پہلے نہیں دکھائی اور مسلم مرد و خواتین کے درمیان کوئی بیداری مہم بھی نہیں چلائی گئی، لیکن تین طلاق اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے جتنا ہنگامہ مرکزی حکومت نے مچا رکھا ہے۔ مسلمانوں میں طلاق کے معاملہ انتہائی کم دیکھنے کو ملتے ہیں، یہ نہ ہی مسلمانوں کے لیے بڑا مسئلہ ہے اور نہ ہی ملک کے لیے۔‘‘

خصوصی طور پر خواتین کے لیے منعقد اس تقریب میں حالانکہ مین اسٹیج کی طرف سے مرد حضرات کا داخلہ ممنوع تھا، لیکن پیچھے کی جانب کچھ ضعیف اور مدرسوں سے وابستہ لوگ بیٹھے ہوئے نظر آ رہے تھے۔ ان میں سے ایک سن رسیدہ آفاق خان مسلم اداروں سے کچھ خفا نظر آئے۔ انھوں نے کہا کہ ’’ان لوگوں کی نیند اس وقت کھلتی ہے جب کوئی انھیں جھنجھوڑتا ہے۔ جب کچھ مسلم خواتین عدالت پہنچ کر انصاف مانگ رہی تھیں تو مسلم اداروں کے ذمہ داران کو چاہیے تھا کہ وہ ان خواتین سے ملاقات کرتے اور ان کے مسائل کا حل نکالتے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’حکومت نے مسلم خواتین کے حق کی بات کہہ کر ایسا بل تیار کیا ہے جو انھیں انصاف دلانے کی جگہ مزید ابتر زندگی دے گا۔ ایسی صورت میں مجبوراً ہر گھر یلوعورتوں کو باہر نکل کر اپنی بات احتجاجی مظاہروں کے ذریعہ حکومت کے سامنے رکھنی پڑ رہی ہے۔ لیکن یہ وقت مسلم تنظیموں کے لیے بھی محاسبہ کرنے کا ہے، کیونکہ کہیں نہ کہیں، کچھ نہ کچھ غلطی تو ضرور ہوئی ہے۔‘‘

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسلم طبقہ میں اسلامی بیداری کی بہت کمی ہے چاہے وہ مرد ہوں یا خواتین۔ اس کی ذمہ داری مسلم تنظیموں اور اداروں پر ہے لیکن وہ خوابِ غفلت میں رہنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ اب جب پانی سر سے اوپر ہو چکا ہے اور وہ دیکھ رہے ہیں کہ حکومت ان کی ایک نہیں سن رہی، تو انھوں نے اپنی خواتین کو گھروں سے باہر نکال دیا ہے، ان عورتوں کو جنھیں وہ ہمیشہ گھر کے اندر پردے میں رہنے کی تلقین کرتے رہے ہیں اور رشتہ داروں کے یہاں منعقد ہونے والی تقریب سے الگ کسی دیگر تقریب میں شرکت کی اجازت دینا گوارا نہیں کرتے۔ آج رام لیلا میدان میں یہ خاتون خانہ بڑی تعداد میں موجود تھیں اور گرمی کے باوجود اپنی کرسیوں سے اٹھ نہیں رہی تھیں۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے اسلامی شریعت کو بچانے کی ساری ذمہ داری ان کے کندھوں پر ڈال دی گئی ہے۔ چلچلاتی گرمی میں وہ بس پانی پی رہی تھیں، ہاتھ میں موجود پلے کارڈ کو پنکھا بنا کر اپنا پسینہ خشک کر رہی تھیں اور بار بار اِسی پلے کارڈ کو اوپر اٹھا کر مقررین کے جوش و جذبے کو سلام بھی کر رہی تھیں۔ تقریب کے خاتمہ پر بس یہی احساس ہوتا ہے کہ کاش! جتنی محنت آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے مودی حکومت کے طلاق ثلاثہ بل کے خلاف آواز بلند کرنے کے لیے کیا ہے، اس کا ایک چھوٹا حصہ بھی مسلم طبقہ کو بیدار کرنے کے لیے کیا ہوتا تو آج یہ دن دیکھنا نہیں پڑتا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔