ممبرا اور میرا روڈمیں رمضان کی رونقیں کچھ کم نہیں ہوتی ہیں

ممبئی میں آبادی میں اضافہ اور خاندان کے اراکین بڑھنے کے پیش نظر چھوٹے چھوٹے فلیٹ اور مکانات چھوڑ کر ہزاروں خاندانوں نے ممبرا شہرکارخ کیا اور وہ خوش ہیں۔

فائل تصویر آئی اے این ایس
فائل تصویر آئی اے این ایس
user

یو این آئی

ممبئی شہر اور مضافاتی علاقوں کی آبادی میں 1970 کے عشرے میں تیزی سے اضافہ نے ارباب اقتدار کو پڑوسی تھانے ضلع اور تھانے کی کھاڑی کے پار نیا شہر اور بستیوں کی توسیع کا منصوبہ بنانے پرمجبور کردیا۔تھانے اور رائے گڑھ ضلع میں نئی ممبئی کے نام سے نیا شہر بسایاگیاجوکہ واشی سے پنویل تک پھیل چکاہے۔اور ایک نیا ائیر پورٹ کے تعمیراتی کام کوبھی منظورہ مل گئی ہے۔تھانے شہرکے قریب ممبرا نامی قصبہ کو بھی اس درمیان جیسے ترقی اور ترقیاتی کاموں کے پرسے لگ گئے،مسلم میمن برادری،بوہرہ مسلم اور اتر پردیش کے شہریوں نے ممبئی سے نکل کر کھلی فضاء میں رہنے کا فیصلہ کیا۔مرحوم سیاست دان اور میمن فیڈریشن کے رہنماء یوسف پٹیل اور بلڈر یوسف پٹیل کا مسلمانوں کی اس بستی کی ترقی میں بہت بڑا ہاتھ رہا۔انہوں نے ہی اسکول،ٹیکنکل اسکول اور کالج کی بنیاد رکھی تھی۔ یہی حال مغربی مضافاتی علاقے میراروڈ کابھی ہوا،معروف بلڈر نذرحسین نے میراروڈکوآباد کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے،جبکہ ان کے صاحب زادے اور سابق ایم ایل سی مظفر حسین نے یہاں چار چاند لگا دئے۔

ممبئی میں آبادی میں اضافہ اور خاندان کے اراکین بڑھنے کے پیش نظر چھوٹے چھوٹے فلیٹ اور مکانات چھوڑ کر ہزاروں خاندانوں نے ممبرا شہرکارخ کیااور آج ممبراتھانے میونسپل کارپوریشن میں شامل ہے جبکہ میراروڈاور بھیندر میونسپل کارپوریشن بنا دیئے گئے ہیں۔پہلے ممبرا کاذکر کرتے ہیں۔بقول صحافی انوارالحق ممبراممبئی کے مسلمانوں کاایک پسندیدہ شہربن چکاہے۔تعلیم،طبی،اور دیگر شہری سہولیات دستیاب ہیں۔اس کی خاص بات یہ ہے کہ ممبرا میں آج بھی مکانات کی قیمتیں کافی سستی ہیں ،اور کرایہ بھی معقول رہتا ہے ۔ممبئی سے نکل کر اردوصحافت ،ادب اور سیاست سے جڑی متعدد شخصیات نے یہاں کا رخ کیاہے،جن کی ایک طویل فہرست ہے،جن میں جمیل مرسیع پوری،صحافی اور شاعر اور فرزندندیم صدیقی ،شاعر ارتضیٰ نشاط، شمیم عباس، اعجازہندی،عرفان جعفری،آٹھ بحروں میں شاعری کہنے والےعبیداعظم اعظمی،صحافیوں اور ادیبوں میں عالم رضوی،شاہدندیم،عرفان خان، اقبال انصاری،حسین شمسی،اردو پترکارسنگھ کے احمد اظہارامین انصاری ،ناصریوسف،ہاشم خان، عزیزملک، دانش ریاض،ظفراللہ خان اور انوار الحق وغیرہ شامل ہیں۔


ممبرا اور کوسہ میں گلی گلی محلے محلے میں ماہ رمضان کی رونقیں نظر آتی ہیں،لیکن ممبرااور کوسہ کے درمیان گلاب پارک ،امرت نگر میں رمضان میں ایک الگ ہی نظارہ رہتا ہے۔ ممبرااسٹیشن اور قومی شاہراہ پرنمازعصرسے پہلے ہی چہل پہل شروع ہوجاتی ہے۔اور یہ رونق دوسال کے بعد دوبالا ہوچکی ہے۔ یہ سلسلہ سحری تک جاری رہتا ہے،کوسہ کے شملہ پارک اور رشید کمپاونڈ میں چائے کے ہوٹل اور پان کی دکانوں کے آس پاس سرگرمیاں نظر آتی ہیں۔

ممبرا ریلوے اسٹیشن کے مقابل رضوی پارک کی سنی جامع مسجد سب سے پرانی مسجد ہے،غریب نواز مسجد بھی مشہور ہے جبکہ کوسہ میں شافعی جامع مسجد سب سے پہلی مسجد ہے،پھر درگاہ فخرالدین شاہ اور دارالفلاح مسجد جو تھانے ضلع تبلیغ جماعت کا مرکز ہے۔بیت السلام الحدیث مسجد ہے۔


صحافی انوارالحق کاکہنا ہے کہ گزشتہ دس پندرہ سال سے ممبر ا کے حالات بدل گئےہیں اور شہریوں کا رہن سہن بھی بدلا ہے بلکہ تعلیم کے ساتھ ساتھ شعور بھی آیا ہے۔یہاں کی اہم سڑکیں اور گلی کوچوں میں اچھی کنکریٹ کی سڑکیں بن چکی ہیں ،مقامی ایم ایل اے اور ریاستی وزیر برائے اقلیتی امور جتیندر اوہاڑ کے دور میں ممبرا کا نقشہ۔بدل چکا ہے۔سڑکوں کی تعمیر،پانی ، اور بجلی کی بہتر فراہمی نے ممبرا کے حالات بہتر کردیئے ہیں ،ممبئی اور نوی ممبئی سے قریب ہونے کے سبب آبادی میں اضافہ ہوا ہے ۔جبکہ ایک خوبی یہ ہے کہ یہاں اچھی پوش ہاوسنگ سوسائٹیوں میں بھی سستے اور اچھے مکانات مل رہے اور یہی بات اہمشخصیات کو ممبرا کھینچ لائی ہے۔ممبئی کی جانی مانی شخصیات یہاں آباد ہیں۔

ممبرا کی اس مسلم اکثریتی آبادی میں متعدد تعلیمی ادارے قائم کیے گئے ہیں۔سیاسی طور پر بھی مسلم لیڈران سرگرم ہیں۔کانگریس کے سابق مئیر نعیم خان ،شمیم خان،اشرف پٹھان ،سعید علی اور دیگر افراد سرگرم ہیں۔یہاں این سی پی اور کانگریس کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ،ایم آئی ایم ،سماج وادی پارٹی بھی سرگرم ہیں ۔ اس سلسلہ میں ان دنوں اخبار کے ایسوسیڈ ایڈیٹر عزیز ملک کے مطابق ممبرا اور کوسہ میں ماہ رمضان کا ایک الگ ہی لطف آتا ہے۔یہاں کی اہم سڑک رمضان کی وجہ سے رات بھر بارونق رہتی ہے۔


گزشتہ دودہائیوں میں ممبرا میں تعلیمی بیداری پیدا ہوئی اور حالات زندگی بھی بدلی ہے ،ممبئی کی چال اور چھوٹی چھوٹی کھولیوں میں رہنے والے اب یہاں کے فلیٹوں میں بہتر زندگی گزرا رہے ہیں۔تعلیم۔کی وجہ سے ان کا رہن سہن بھی بدل گیا ہے جبکہ دین کی طرف بھی رحجان بڑھا ہے اور ممبرا کو تیس چالیس سال قبل "تڑی پار" بستی کہا جاتا تھا،لیکن اس دھبے کو ہٹادیا گیا ہے۔ ، اب ایسا نہیں ہے اور بڑی تعداد میں قومی اور نجی بینکوں نے شاخیں کھول لی ہیں۔حال میں ایک مسلم نوجوان نے آئی اے ایس میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور اعلیٰ عہدہ پر فائز کیا گیاہے۔عبداللہ پٹیل ٹیکنکل انسٹی ٹیوٹ،کالسیکر اسپتال اور دیگر اداروں نے ان کی شان دوبالا کردی۔

ممبرا سینٹرل ریلوے پر واقع ہے تودوسرا شہر میراروڈ اس کے الٹ ممبئی بڑودہ مغربی ریلوےریل روٹ پر واقع ہے۔1970-1960 کے عشرے میں نمک کی۔کھیتی ہوتی تھی ،لیکن نذرحسین نامی سوشل ورکر اور بلڈر نے نیا نگر کے نام سے ایک نیا شہر بسایا جوکہ مغربی خطہ کا ایک ترقی یافتہ شہر بن چکا ہے ۔یہاں کی مسجد الشمس کو امسال جدیدترین ٹیکنالوجی سے آراستہ کیا گیا ہے۔اردو داں طبقہ کا گڑھ بن گئے میرا روڈ میں صحافی محمد وجہیہ الدین، شاعروصحافی اطہرعزیز، افسانہ نگار سلام بن رزاق،کمال جائسی مرحوم،صحافی مشرف شمسی،فرحان،حنیف اور دوسرے اردو محفلوں کو زندہ کیے ہوئے ہیں،ماہ صیام میں اسٹیشن سے نیا نگر ،کاشی میرا اور بھیندر تک رونق دیکھنے لائق ہوتی ہے۔ان۔دونوں شہروں نے ممبئی کے اردو داں طبقہ کو نئی بستیاں دی ہیں۔ممبئی شہر سے اردو والے یہاں بس چکے ہیں ،لیکن زبان کا دامن نہیں چھوڑا ہے اور مایوس بھی نہیں ہیں ۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔