افروزل کا قصور صرف اور صرف مسلمان ہونا تھا

افروزل خان کے قتل کے بعدمالدہ ، مرشدآباد اور دیگر اضلاع کے ورکروں میں زبردست خوف ہے جس کی وجہ سے بڑی تعداد میں باہر کام کر رہے افراد نےاپنے اپنے گھروں کو لوٹنا شرو ع کر دیا۔

قومی آواز
قومی آواز
user

یو این آئی

راجستھان کے راج سمند ضلع میں لوجہاد کے نام پر بہیمانہ طور پرقتل کردیے گئے افروزل خان کے اہل خانہ نے مقدمہ کو کلکتہ ہائی کورٹ میں منتقل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔اس مطالبہ کو کئی تنظیموں نے حمایت کی ہے۔ دوسری جانب اس واقعہ کا وہاں کی عوام پر یہ اثر ہے کہ مسلم اکثریتی اضلاع مالدہ ، مرشدآباد اور شمالی دیناج پور کے وہ نوجوان جو دوسری ریاستوں میں کام کرکے اپنے خاندان کے پیٹ پالتے ہیں انہوں نے خوف کی وجہ سے اپنے گھروں کو لوٹنا شروع کر دیا ہے۔

افروزل قتل معاملہ کو کلکتہ ہائی کورٹ منتقل کرنے کے مطالبہ پر ہیومن رائٹس پروٹیکشن ایسوسی ایشن نے متاثرہ خاندان کی حمایت کی ہے۔ ایسو سی ایشن کے ایک وفد نے آج مغربی بنگال کے ضلع مالدہ میں افروزل کے اہل خانہ سے ملاقات کی ۔ وفد کے ارکان نے کہا ’’جس حکومت نے اس پورے واقعے کے خلاف سخت رویہ نہیں اپنا یا اور جس ریاست کی وزیر اعلیٰ نے اس پورے معاملے پر خاموشی اختیار کرلی ہو وہاں انصاف ملنا مشکل ہے۔‘‘
ایسوسی ایشن کے صدر شمیم احمد نے کہا ’’افروزل کا خاندان بہت ہی غریب ہے اور ان کا بار بار راجستھان جاکر مقدمہ کی پیروی کرنا ناممکن ہے اس خاندان میں کوئی لڑکا نہیں ہے اور دوسرا یہ کہ راجستھان میں انصاف ملنا کافی مشکل ہے۔ ‘‘

سوشل میڈیا
سوشل میڈیا
تصویر: مہلوک افروزل کے گھر پر ماتم کرتیں خواتین 

افروزل کے قتل کے بعد سے مغربی بنگال اور ملحقہ اضلاع میں خوف طاری ہے۔ اس علاقہ میں فیکٹری اور کارخانے نہ ہونے کی وجہ سے روزگار کے مواقع نہیں ہیں۔ اعلیٰ تعلیم سے محرومی کی وجہ سے بیشتر افراد اپنا گھر چلانے کیلئے راجستھان، مدھیہ پردیش، آندھرا پردیش اور ملک کی دوسری ریاستوں میں راج مستری اور تعمیراتی پروجیکٹ میں مزدوری کا کام کرتے ہیں ۔ افروزل خان کے قتل کے بعدورکروں میں عدم تحفظ کا احساس ہے اور 8دسمبر کے بعد بڑی تعداد میں ورکرس اپنے اپنے گھرواپس آرہے ہیں۔

افروزل کے آبائی گاؤں سید پور کے رہائشی عقیل جو خود بھی راج سمند میں مزدوری کاکام کرتے ہیں نے بتایا کہ 8دسمبر کو اس واقعہ کے پیش آنے کے بعد اب تک راج سمند ضلع سے کئی درجن افرا دگاؤں واپس آچکے ہیں اور کئی لوگ دہلی اور دیگر جگہ چلے گئے ہیں ۔ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ صرف سید پور گاؤں میں اب تک30سے 40لڑکے واپس آچکے ہیں اور آس پاس کے گاؤں کے لوگ بھی واپس آچکے ہیں یا آرہے ہیں ۔

ایک نوجوان لڑکے نے بتایا کہ چونکہ راجستھان اور دیگر ریاستوں میں تعمیراتی کام زیادہ ہوتے ہیں اور ہمیں خالی نہیں بیٹھنا پڑتا ہے اس لیے ہم لوگ وہاں کام کرنے کیلئے جاتے ہیں۔اس نے بتایاکہ ہمیں کام اس لیے بھی زیادہ ملتا ہےکیونکہ ہم لوگ بہت ہی کم مزدوری پر کام کرتے ہیں ۔

ایک پرائیوٹ پرائمری اسکول میں پڑھانے والے اشفاق عالم نے بتایا کہ ’’اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد روزگار کا مسئلہ سب سے زیادہ سنگین ہوجاتا ہے کیوں کہ زیادہ پڑھنے کے بعد مزدوری کرنے سے لڑکے ہچکچاتے ہیں اور وہ بے روزگار بن کر والدین کے لئے بوجھ بن جاتے ہیں۔‘‘ مقتول افروزل کے گھر کے قریب رہنے والی 18سالہ زبیب النساء جو افرازل خان کی چھوٹی بیٹی حبیبہ کی سہیلی بھی ہے اور ہم جماعت بھی اس نے بتایا کہ ہم لوگ تو پڑھ رہے ہیں مگر ہمارے پڑھنے کا کیا فائدہ ہوگا ۔حکومت ہمیں نوکری نہیں دیتی اور گھر کے لوگ کہتے ہیں کہ زیادہ پڑھنے کے بعد شادی میں دشواری ہوگی کیوں کہ ہمارے آس پاس کے گاؤں کے زیادہ تر لڑکے زیادہ تعلیم حاصل کرنے کے بعدراجستھان اور دیگر علاقوں میں راج مستری یا پھر مزدوری کاکام کرتے ہیں۔اگر حکومت روزگار دے تو یہ لوگ کیوں باہر جائیں گے ؟۔افروزل خان سے متعلق زبیب النساء نے بتایا کہ وہ بہت ہی اچھے تھے اور ان کی صرف تین ہی بیٹیاں تھیں مگر وہ اپنے بیٹیوں کو بیٹے کی طرح مانتے تھے اور کہتے تھے ان کی بیٹیاں جتنی تعلیم حاصل کرنا چاہیں گی وہ اس کیلئے تیار ہیں۔

خیال رہے کہ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کا براہ راست اثر ان مزدوروں پر نہیں پڑا تھا مگر نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے نفاذ کے بعد تعمیراتی کاموں اور فیکٹریوں میں کام کم ہونے کی وجہ سے مالدہ ، مرشدآباد اور آس پاس کے اضلاع کے ہزاروں ورکرس بے روزگار ہوکر گھر لوٹ گئے تھے مگر اب حالات میں سدھار آنے کے بعد وہ دوبارہ کام پر لوٹ رہے تھے مگر اس واقعے نے انہیں ہلاکر رکھ دیا ہے ۔گاؤں کے لوگوں کا کہنا تھا کہ افروزل خان کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ ایک غریب، مزدور اور مسلمان تھا۔باقی کچھ بھی نہیں تھا شمبھولال کو اپنے اس کام کیلئے افروزل مل گیا تھا اگر وہ نہیں ملتا تو کوئی اور شکار ہوتا۔

اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 13 Dec 2017, 7:03 PM