راج بھون کے ذریعے جموں و کشمیر کا نقشہ بدلنے کی کوششیں ہورہی ہیں: عمر عبداللہ کا الزام

عمر عبدللہ نے کہا کہ یہ الیکشن 35اے کے دفاع اور ریاست میں بھائی چارے کے علم کو بلند کرنے کے لئے ہوگا۔ یہ آر ایس ایس کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے ہوگا۔ ان لوگوں نے ریاست میں زہر ڈالا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

سری نگر: نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے الزام لگایا کہ راج بھون کے ذریعے ریاست جموں وکشمیر کا نقشہ بدلنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آنے والے انتخابات ریاست کی خصوصی پوزیشن کے دفاع کے لئے انتہائی اہم ہیں۔ ان باتوں کا اظہار عمر عبداللہ نے منگل کے روز وسطی کشمیر کے حلقہ انتخاب بیروہ کے رٹھسونہ میں پارٹی کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

انہوں نے کہا 'آنے والے الیکشن میں نیشنل کانفرنس کو بھرپور طریقے سے شرکت کرنی ہے، کیونکہ یہ الیکشن نہ صرف تعمیر و ترقی کے لئے ہوگا، نہ صرف نوجوانوں کے روزگار کے لئے ہوگا، نہ صرف کالے قوانین کو ہٹانے کو لے کر ہوگا بلکہ یہ الیکشن دفعہ35 اے اور دفعہ 370 کے دفاع کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہوگا'۔

انہوں نے کہا کہ 'ہمیں آنے والے انتخابات میں زبردست کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا کیونکہ یہ الیکشن جتنا تعمیر و ترقی اور روزگار کا ہوگا اتنا ہی 35اے کے دفاع اور ریاست میں دوبارہ امن اور بھائی چارے کے علم کو بلند کرنے کے لئے ہوگا۔ یہ الیکشن آر ایس ایس کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے ہوگا۔ ان لوگوں نے ریاست میں زہر ڈالا ہے، چاہے وہ جموں ہو، کشمیر یا لداخ ہو'۔

عمر عبداللہ نے کہا کہ 'بدقسمتی سے آر ایس ایس اور ان کے آلہ کار آج بھی اپنی حرکتوں سے باز نہیں آرہے ہیں، یہ لوگ آج بھی کوشش کرتے ہیں کہ اس ریاست کا بٹوارہ ہو، حکومت ان کی ہے نہیں لیکن یہ کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح راج بھون کے ذریعے ریاست کا نقشہ بدل ڈالیں، اسی لئے ہم گورنر صاحب کو بار بار یہ یاد دلاتے ہیں کہ آپ عوام کے چنے ہوئے نمائندہ نہیں، آپ دلی کے نمائندے ہو، یہاں جو بڑے بڑے فیصلے لینے ہوں گے وہ لوگوں کے چنے ہوئے نمائندے لیں گے'۔

انہوں نے کہا کہ 35اے کو بچانا، نئے ڈویژن بنانا، نئے اضلاع بنانا، خطوں کو خصوصی مراعات دینے جیسے بڑے بڑے فیصلے آج راج بھون کے اختیار نہیں، یہ دائرہ اختیار لوگوں کے چنے ہوئے نمائندوں کو ہوتا ہے وہ وہی لوگوں کی امنگوں اور احساسات کے مطابق فیصلے لے سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 'لوگ بھی اب عوامی حکومت چاہتے ہیں اور اس کے لئے الیکشن جلدی ہونے چاہیں، انتظار میں کوئی فائدہ نہیں اور نہ ہی ریاست کو فائدہ ہے۔ جموں وکشمیر کے عوام آنے والے انتخابات میں نیشنل کانفرنس کی بھر پور شرکت دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم نے پنچایتی اور بلدیاتی الیکشن نہیں لڑا اُس کی حالت آپ کے سامنے ہے، ترال کا سرپنچ جموں میں ہے، کولگام اور شوپیان کے کارپورٹر دلی میں بیٹھے ہیں۔ گورنر صاحب فیصلہ کرتے ہیں کہ کس کو اُٹھانا ہے اور کس کو بٹھانا ہے۔ نیشنل کانفرنس کی عدم شرکت سے غلط لوگ سامنے آگئے، سری نگر میونسپل کونسل کا حال دیکھیے، آئے روز کچھ نہ کچھ نیا دیکھنے اور سننے کو ملتا ہے، یہاں تک کہ ایک دوسرے کو زخمی بھی کیا جارہا ہے۔ جس دن شہر برف باری کے بعد پانی میں ڈوبا ہوا تھا یہ لوگ اپنی لڑائی میں لگے ہوئے تھے۔ ہم نہیں چاہتے ہیں کہ آنے والے الیکشن میں یہ حال ہو'۔

مرکز میں براجمان بھاجپا کو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان مذاکرات میں اڑچن قرار دیتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ 'ہم اس کوشش میں ہیں کہ جموں وکشمیر میں نیشنل کانفرنس کی مضبوط حکومت بنے اور چاہتے ہیں کہ مرکز میں بھی حکومت تبدیل ہو کیونکہ بھاجپا نے بات چیت کے تمام دروازے بند کر رکھے ہیں۔ ہم نے ہمیشہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے بات چیت کی وکالت کی ہے چاہئے وہ پاکستان کے ساتھ ہو یا اندرونی سطح پر۔ ہمارا موقف رہا ہے کہ بندوق کے ذریعے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا'۔

جموں وکشمیر میں مضبوط حکومت کے قیام کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے نیشنل کانفرنس کے نائب صدر نے کہا کہ 2008 میں ہمیں کانگریس کی حمایت کی ضرورت پڑی پھر پی ڈی پی نے 2014 میں بھاجپا کا ساتھ حاصل کیا اور ریاست کی حالت آج آپ کے سامنے ہے۔ ہم لنگڑی حکومت نہیں چاہتے، ہمیں اپنی حکومت چاہیے، ہم چاہتے ہیں کہ ریاست کی ایک آواز ہو اور اس آواز میں وزن ہو۔

بیروہ میں تعمیر و ترقی کا ذکر کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ میں نے اپوزیشن میں رہ کر یہاں بحیثیت ایم ایل اے کام کیا اور میں چاہتا ہوں کہ اب حکومت میں رہ کر بھی بیروہ کی نمائندگی کروں اور اس انداز سے کروں کہ اگلے الیکشن کے وقت میرے ساتھیوں کے پاس کرنے کے لئے کوئی شکایت نہ ہو۔ بہت حد تک کام کرنے کے باوجود یہاں پانی کی قلت آج بھی ہے، ہسپتال ہے لیکن ڈاکٹروں کی کمی ہے، اسکول ہے لیکن عمارت نہیں بن پارہی ہے، کہیں اسکول کا درجہ بڑھانا باقی رہ گیا ہے، بہت ساری سڑکوں کی تعمیر اور تارکول بچھانا ہے، بجلی کی قلت کا یہاں کے لوگوں زبردست سامنا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ حکومت میں رہ کر یہاں کے لوگوں کے یہ مشکلات دور کرسکوں۔

انہوں نے کہا کہ میں نے بیروہ میں بجلی کے نظام کی بہتری کے لئے 50 کروڑ کی لاگت کا پروجیکٹ منظور کروایا لیکن افسوس کی بات ہے کہ سیاسی انتقام گیری کی بنیاد پر ان پروجیکٹوں پر عدالت سے حکم امتناع لایا گیا اور سابق پی ڈی پی بھاجپا حکومت نے اس امتناع کو ختم کرنے کے لئے ذرا سی بھی سنجیدگی نہیں دکھائی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔