راہل گاندھی وراثت کی سیاست اور اخلاقی روایات کی پاسداری میں سرگرم... عتیق الرحمن
جس پُرتپاک انداز میں مولانا فیصل رحمانی نے راہل گاندھی اور تیجسوی یادو سمیت انڈیا بلاک کے دیگر رہنماؤں کا استقبال اپنی خانقاہ میں کیا، اس سے بہار کی سیاست میں نئی ہلچل پیدا ہو گئی ہے۔

لوک سبھا میں حزب مخالف کے رہنما راہل گاندھی نے بہار میں ووٹر لسٹ کی خصوصی گہری نظرثانی (ایس آئی آر) کو ’ووٹ بندی‘ سے تعبیر کرتے ہوئے اس کے خلاف 16 دنوں کے لیے ‘ووٹر ادھیکار یاترا‘ چلا رکھی ہے، جو چھٹے دن جمعہ کو مونگیر اور بھاگلپور ضلع میں زور و شور سے جاری رہی۔ درجنوں مقامات پر راہل گاندھی کے ساتھ تیجسوی یادو، دیپانکر بھٹاچاریہ، مکیش سہنی، کرشنا الاورو، ڈاکٹر شکیل احمد خان، راجیش کمار رام، ڈاکٹر اکھلیش پرساد سنگھ، محمد شاہنواز عالم، محمد منت رحمانی اور انڈیا بلاک کے دیگر سرکردہ لیڈران یاترا کرتے رہے اور جگہ جگہ امنڈے ہزاروں لوگوں سے مختصر خطاب بھی کرتے رہے۔ ان تقاریر میں وہ ایس آئی آر کو ’ووٹ بندی‘، ’ووٹ چوری‘ اور ’چناؤ چوری‘ قرار دے کر اسے روکنے کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے کا عزم ظاہر کرتے نظر آئے۔ انھوں نے لوگوں سے آئین و جمہوریت بچانے کی جنگ میں بھرپور و مثبت تعاون دینے کی اپیل کی۔

جمعہ کی صبح راہل گاندھی نے اپنی یاترا کا آغاز کرنے کے فوراً بعد تیجسوی سمیت انڈیا بلاک کے درجن بھر سرکردہ رہنمائوں کے ساتھ مونگیر میں واقع ملک کی قدیم خانقاہ اور روحانی مرکز خانقاہ رحمانی میں حاضری دی اور خانقاہ کے سجادہ نشیں و امیر شریعت بہار، جھارکھنڈ، اڈیشہ و مغربی بنگال مولانا احمد ولی فیصل رحمانی سے ملاقات کی اور ان سے جمہوریت و آئین کی اپنی منظم تحریک میں کامیابی کے لیے دعائیں لیں۔

راہل گاندھی نے ’ووٹر ادھیکار یاترا‘ کے چھٹے دن جمعہ کو خانقاہ رحمانی مونگیر میں حاضری دے کر شاندار تاریخی روایات کی پاسداری کا ثبوت دیا اور ساتھ ہی ساتھ وراثت کی سیاست کے حوالے سے بھی اپنے مخالفین پر برتری حاصل کرنے کی کوشش کی۔ غور طلب ہے کہ سال 1985 میں راہل گاندھی کے والد آنجہانی راجیو گاندھی نے ملک کے وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہتے ہوئے خانقاہ رحمانی مونگیر میں حاضری دی تھی اور اس وقت کے سجادہ نشیں و امیر شریعت بہار و اڈیشہ حضرت مولانا منت اللہ رحمانی سے ملاقات کر کے ان سے دعائیں لی تھیں اور مختلف امور پر سنجیدہ تبادلہ خیال بھی کیا تھا۔ مولانا منت اللہ رحمانی 1985 میں خانقاہ رحمانی کے سجادہ نشیں ہونے کے ساتھ ساتھ امارت شرعیہ، بہار و اڈیشہ کی قیادت کا بھی فریضہ انجام دے رہے تھے اور قابل ذکر ہے کہ مولانا منت اللہ رحمانی موجودہ امیر شریعت اور خانقاہ رحمانی کے سجادہ نشیں مولانا احمد ولی فیصل رحمانی کے دادا تھے۔ اس وقت راجیو گاندھی کے ساتھ بہار کے وزیر اعلیٰ چندر شیکھر سنگھ تھے۔ جس طرح سے راہل گاندھی نے اپنے آنجہانی والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اخلاقی و تاریخی روایات کی پاسداری کا خوبصورت مظاہرہ کیا اور موجودہ امیر شریعت و خانقاہ رحمانی کے سجادہ نشیں کے دل میں اتر جانے کی بھرپور کوشش کی، جس پُرتپاک انداز میں مولانا فیصل رحمانی نے راہل گاندھی اور تیجسوی یادو سمیت انڈیا بلاک کے دیگر رہنماؤں کا استقبال اپنی خانقاہ میں کیا، اور جس طرح سے ایس آئی آر سمیت مختلف امور پر سنجیدہ تبادلہ خیال کیا، اس سے بہار کی سیاست میں نئی ہلچل پیدا ہو گئی ہے۔ خاص طور پر مسلم سیاست نئے موڑ پر پہنچنے لگی ہے جہاں قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہو گیا ہے۔ سیاسی، سماجی اور ملّی حلقوں میں یہ بات تیزی سے گشت کرنے لگی ہے کہ راہل گاندھی اور تیجسوی یادو سمیت انڈیا بلاک کے دیگر رہنماؤں کی خانقاہ رحمانی میں حاضری سے پورے بہار کے مسلمانوں میں مثبت پیغام پہنچے گا اور انڈیا بلاک کی جانب ان کا رجحان و اعتماد تیزی سے بڑھے گا، جس کا فائدہ یقینی طور پر ڈیڑھ دو ماہ بعد بہار میں ہونے والے اسمبلی انتخاب میں ملنے کے امکانات ہیں۔

یوں تو پہلے سے ہی وقف ترمیمی بل کی حمایت کرنے کی وجہ سے جے ڈی یو، ہم سیکولر اور ایل جے پی آر سے بہار کے مسلمانوں میں ناراضگی پائی جا رہی ہے، اور ایک طرح سے انہوں نے آئندہ اسمبلی انتخاب میں متحد و منظم ہو کر پورے این ڈی اے کے خلاف ووٹ کرنے کا ارادہ کر لیا ہے لیکن آج راہل گاندھی کی خانقاہ میں حاضری سے ریاست کے مسلمانوں کے اس ارادے میں مزید تقویت ملنے کے آثار نمایاں ہو گئے ہیں۔ ایک خاص وجہ یہ بھی ہے کہ خانقاہ رحمانی کے موجودہ سجادہ نشیں بہار کے مسلمانوں کے سب سے مضبوط اور معتبر دینی ادارہ امارت شرعیہ پھلواری شریف کے امیر شریعت کے عہدے پر بھی فائز ہیں۔ امارت شرعیہ تمام نشیب و فراز کے باوجود آج بھی ریاست کے مسلمانوں کا سب سے مضبوط اور بڑا دینی مرکز بنا ہوا ہے اور اس پر مسلمانوں کی اکثریت کا اعتبار برقرار ہے۔ دینی امور کے سلسلے میں مسلمان سب سے پہلے امارت شرعیہ سے رجوع کرتے رہے ہیں، تو دوسری جانب انتخابات کے دوران بھی اور اس کے بعد بھی کئی اہم بلوں اور قوانین کے معاملے پر بھی فیصلہ، احکامات، فتویٰ اور مشورے کے لیے ریاست کے مسلمانوں کی نگاہیں امارت شرعیہ کی جانب ہی مرکوز ہوتی رہی ہیں۔ اس اعتبار سے موجودہ امیر شریعت اور خانقاہ رحمانی کے سجادہ نشیں سے راہل گاندھی اور تیجسوی یادو کی یہ ملاقات غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے، جس کے دور رس نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔

معتبر ذرائع سے ملی اطلاع کے مطابق آج راہل گاندھی اور تیجسوی یادو نے امیر شریعت کو ’ووٹر ادھیکار یاترا‘ کے اغراض و مقاصد سے تفصیلی طور پر واقف کراتے ہوئے دعا کے ساتھ دوا بھی طلب کیا، اور ریاست کے مسلمانوں کو اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کے لیے آمادہ کرنے کی بات کہی۔ اس پر امیر شریعت کی جانب سے فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مثبت یقین دہانی کرائی گئی۔ امیر شریعت نے بھی ایس آئی آر کو ریاست کے تمام شہریوں کے لیے انتہائی خطرناک قرار دیا اور اس کے خلاف چلائی جانے والی ہر تحریک میں مسلمانوں کی سرگرم حصہ داری کو ضروری بتایا۔ غور طلب ہے کہ امارت شرعیہ اور خانقاہ رحمانی مونگیر سے اس وقت برسراقتدار سیاسی جماعت جنتا دل یونائٹیڈ اور بالخصوص وزیر اعلیٰ نتیش کمار کے فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں ان کی حاضری بھی ان دونوں اداروں میں نہیں ہوئی ہے، جبکہ امارت شرعیہ کا مخالف مسلم گروپ بھی نرم پڑ گیا ہے اور فی الحال مسلمانوں کی حمایت نہیں ملنے کی وجہ سے مصلحت کی چادر اوڑھنے پر مجبور ہوگیا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔