خواتین صحافیوں کو عوامی پلیٹ فارم سے باہر رکھنے کی اجازت کیوں دی گئی؟ راہل گاندھی کا پی ایم مودی سے سوال
راہل گاندھی نے پرینکا گاندھی کی پوسٹ کو شیئر کرتے ہوئے افغان وزیر کی پریس کانفرنس سے خواتین صحافیوں کی غیر موجودگی پر وزیراعظم مودی سے وضاحت طلب کی۔ دریں اثنا، وزارت خارجہ نے اپنے موقف کی وضاحت کی ہے

راہل گاندھی نے افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کی دہلی میں پریس کانفرنس میں خواتین صحافیوں کے داخلے کی اجازت نہ دئے جانے کے معاملے پر وزیراعظم نریندر مودی سے وضاحت طلب کی ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز طالبان کی افغان حکومت میں وزیر خارجہ امیر خان متقی کی پریس کانفرنس میں خواتین صحافیوں کو داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اس معاملہ پر متعدد صحافیوں نے سوشل میڈیا پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے، جبکہ پرینکا گاندھی سمیت کئی لیڈروں نے بھی حکومت وضاحت طلب کی ہے۔
اپنی ایکس پوسٹ میں راہل گاندھی نے لکھا، ’’جناب مودی، جب آپ خواتین صحافیوں کو عوامی فورم سے باہر رکھنے کی اجازت دیتے ہیں، تو آپ ہر ہندوستانی عورت کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ آپ ان کے لیے کھڑے ہونے میں کمزور ہیں۔ ہمارے ملک میں خواتین کو ہر جگہ مساوی شرکت کا حق حاصل ہے۔ اس طرح کے امتیاز کے سامنے آپ کی خاموشی آپ کے ’ناری شکتی‘ کے نعرے کے خالی پن کو ظاہر کرتی ہے۔‘‘
راہل گاندھی نے یہ تبصرہ اس پوسٹ کو شیئر کرتے ہوئے کیا جس میں پرینکا گاندھی نے وزیراعظم مودی سے براہ راست وضاحت طلب کی تھی۔ پرینکا گاندھی نے اپنی پوسٹ میں لکھا، ’’وزیراعظم نریندر مودی جی، براہ کرم طالبان کے نمائندے کی پریس کانفرنس سے خواتین صحافیوں کو خارج کیے جانے کے معاملے میں اپنا موقف واضح کریں۔ اگر آپ کی خواتین کے حقوق کی پہچان صرف انتخابی مواقع پر دکھاوا نہیں، تو ہندوستان کی سب سے اہل خواتین کے ساتھ اس توہین کو ملک میں کیسے برداشت کیا گیا، ایک ملک جس کی خواتین اس کا سہارا اور فخر ہیں۔‘‘
یہ پوسٹ سوشل میڈیا پر وسیع پیمانے پر شیئر کی گئی اور اس پر عوامی اور سیاسی حلقوں میں شدید ردِعمل بھی سامنے آیا۔ کانگریس رہنماؤں نے اس واقعے کو ہندوستان میں خواتین کے مساوی حقوق کے حق میں ایک سنگین معاملہ قرار دیا۔
اسی دوران ہندوستانی وزارتِ خارجہ (ایم ای اے) نے واضح کیا کہ افغان وزیر کی پریس کانفرنس میں خواتین صحافیوں کو شامل نہ کرنے کا فیصلہ وزارت کا نہیں تھا۔ وزارت نے کہا کہ ’’دہلی میں جمعہ، 10 اکتوبر کو افغان وزیر خارجہ کی پریس کانفرنس میں وزارت کا کوئی مداخلت یا کردار نہیں تھا۔ خواتین صحافیوں کی شرکت نہ کرنے کا فیصلہ صرف پریس کانفرنس کے منتظمین کا تھا اور وزارتِ خارجہ کی اس میں کوئی شمولیت نہیں تھی۔‘‘
یاد رہے کہ افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی جمعرات کو سات روزہ دورے پر ہندوستان پہنچے تھے اور اپنے دورے کے دوسرے دن انہوں نے ہندوستانی وزیرِ خارجہ ایس۔ جے شنکر سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے دوطرفہ تجارت، انسانی امداد اور سیکورٹی تعاون جیسے اہم امور پر تفصیلی بات چیت کی۔ متقی نے یہ بھی یقین دہانی کرائی کہ افغانستان کی سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دی جائے گی اور افغانستان جلد اپنے سفارت کاروں کو نئی دہلی بھیجے گا تاکہ دوطرفہ تعلقات بہتر ہو سکیں۔
وزارتِ خارجہ کے موقف اور کانگریس رہنماؤں کے ردعمل کے درمیان اس واقعے نے ہندوستان میں خواتین صحافیوں کے حقوق اور طالبان کے رویے پر نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر صارفین اور صحافتی حلقوں نے وزارتِ خارجہ کی وضاحت کے باوجود طالبان کی اس پالیسی کو ناقابلِ قبول قرار دیا۔