اڈانی گروپ کو لے کر غیر ملکی اخبارات کی رپورٹ پر راہل گاندھی نے وزیر اعظم مودی سے پوچھے تلخ سوالات

راہل گاندھی نے ’دی گارجین‘ اور ’فنانشیل ٹائمز‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان اخبارات نے دعویٰ کیا ہے کہ ایک فیملی جو مودی جی کے بہت قریب ہے، اس نے شیئر پرائس کو بڑھانے کے لیے پیسہ لگایا۔

<div class="paragraphs"><p>راہل گاندھی تصویر @INCIndia</p></div>

راہل گاندھی تصویر @INCIndia

user

قومی آوازبیورو

کانگریس رکن پارلیمنٹ راہل گاندھی نے 31 اگست کو اڈانی گروپ معاملے پر مرکز کی مودی حکومت کو ایک بار پھر شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس بار انھوں نے کچھ غیر ملکی اخبارات کی رپورٹ کا تذکرہ کرتے ہوئے پی ایم مودی کے سامنے تلخ سوالات رکھے اور کہا کہ ان اخبارات کا اثر ہندوستان کی شبیہ و سرمایہ کاری پر پڑتا ہے۔

دراصل راہل گاندھی نے اڈانی گروپ معاملے پر ممبئی میں ایک پریس کانفرنس کیا جس میں کہا کہ ’’پی ایم مودی کے ایک قریبی (گوتم اڈانی) نے ایک بلین ڈالر کا استعمال شیئر خریدنے کے لیے کیا۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ کس کا پیسہ ہے؟ اڈانی کا یا پھر کسی اور کا؟ اس کی جانچ ہونی چاہیے۔‘‘ ساتھ ہی راہل گاندھی نے کہا کہ ’’پی ایم مودی آخر اڈانی معاملے پر خاموش کیوں ہیں؟ جی 20 کے لیڈران ہندوستان آنے والے ہیں جو سوال پوچھیں گے کہ ایک کمپنی اسپیشل کیوں ہے؟ بہتر ہوگا کہ ان کے آنے سے پہلے ان سوالات کے جواب دیے جائیں۔ اس معاملے کی جے پی سی جانچ کرائی جائے۔‘‘


دراصل آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پروجیکٹ (او سی سی آر پی) نے اڈانی گروپ پر الزام عائد کیا ہے کہ اس کے پروموٹرس فیملی کے شراکت داروں سے جڑے غیر ملکی یونٹس کے ذریعہ گروپ کے شیئرس میں کروڑوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی۔ اس الزام کے بعد ایک بار پھر گوتم اڈانی سرخیوں میں ہیں اور کانگریس کے ساتھ ساتھ اپوزیشن پارٹیاں مرکز کی مودی حکومت پر حملہ آور نظر آ رہی ہے۔

راہل گاندھی نے آج پریس کانفرنس میں انگریزی اخبارات ’دی گارجین‘ اور ’فنانشیل ٹائمز‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کی رپورٹس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان اخبارات نے دعویٰ کیا ہے کہ ایک فیملی جو مودی جی کے بہت قریب ہے، اس نے شیئر پرائس کو بڑھانے کے لیے پیسہ لگایا۔ اخبار نے یہ بھی کہا ہے کہ بطور ثبوت ان کے پاس دستاویزات اور ای میل موجود ہیں۔ راہل گاندھی نے وضاحت کی کہ ’’1 بلین ڈالر ہندوستان سے اڈانی جی کی کمپنی کے نیٹورک کے ذریعہ الگ الگ ممالک میں گیا اور پھر واپس آیا۔ اس پیسے سے اڈانی جی نے اپنے شیئر پرائس کو بڑھایا، انفلیٹ کیا۔ اسی منافع سے اڈانی جی ایئرپورٹ خرید رہے ہیں، بندرگاہ خرید رہے ہیں، اور ہندوستان کے دیگر سرمایے خرید رہے ہیں۔‘‘ پھر وہ سوال کرتے ہیں کہ ’’یہ پیسہ جو استعمال کیا جا رہا ہے وہ کس کا ہے؟ یہ اڈانی جی کا ہے یا کسی اور کا ہے؟ اور اگر کسی اور کا ہے تو وہ کس کا ہے؟‘‘


میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے راہل گاندھی آگے کہتے ہیں کہ ’’اس کام کو کرنے کے لیے ماسٹر مائنڈ ونود اڈانی جی ہیں جو گوتم جی کے بھائی ہیں۔ لیکن ان کے ساتھ ان کے دو مزید بزنس پارٹنرس ہیں۔ ایک کا نام ناصر علی شعبان علی ہے اور دوسرے چین چنگ لنگ (چینی باشندہ) ہیں۔ جب اڈانی جی ہندوستان کا انفراسٹرکچر خریدے جا رہے ہیں تو یہ جو چینی شہری ہیں یہ اس میں کیسے جڑے ہوئے ہیں؟ ان کا کیا کردار ہے؟ یہ پتہ لگانے کی ضرورت ہے کہ یہ بیرون ملکی شہری ہندوستانی شیئر مارکیٹ کو کس طرح متاثر کر رہے ہیں۔‘‘

پریس کانفرنس کے آخر میں راہل گاندھی نے ایک بہت اہم بات میڈیا کے سامنے رکھی۔ انھوں نے کہا کہ ’’اڈانی معاملے میں جو سیبی کی جانچ ہوئی تھی، اور جس شخص نے جانچ کے بعد کلین چٹ دے دی تھی، آج وہ اڈانی جی کے چینل ’این ڈی ٹی وی‘ کا ڈائریکٹر ہے۔ مطلب صاف ہے کہ یہ ایک نیٹورک ہے۔ شیئر مارکیٹ کو انفلیٹ کیا جا رہا ہے، اور اس کے بعد منافع سے ہندوستان کے سرمایے خریدے جا رہے ہیں۔ اس پر وزیر اعظم خاموش کیوں ہیں؟‘‘ راہل گاندھی نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ آخر سی بی آئی اور ای ڈی جیسی ایجنسیاں اڈانی گروپ معاملے کی جانچ کیوں نہیں کر رہی ہے؟

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔