رافیل سودہ معاملہ: فرانس کی عدالت میں مقدمہ درج

پیرس کی عدالت میں نریندر مودی حکومت اور فرانس کی دسالٹ ایویشن کمپنی کے مابین 36 لڑاکا رافیل طیاروں کے سودے کے حوالہ سے ایک شکایت درج کرائی گئی ہے

رافیل لڑاکو جہاز، تصویر یو این آئی
رافیل لڑاکو جہاز، تصویر یو این آئی
user

آشیش رے

نئی دہلی / پیرس: رافیل سودے میں ہونے والی مبینہ بدعنوانی کے خلاف فرانس کی راجدھانی پیرس کی ایک عدالت میں مقدمہ درج کرایا گیا ہے۔ کیس درج کرائے جانے کا انکشاف منگل کی رات یعنی کل ہوا۔ اطلاعات کے مطابق 22 اپریل کو پیرس کے جیوڈیشل کورٹ میں نریندر مودی حکومت اور فرانس کی دسالٹ ایویشن کمپنی کے مابین 36 رافیل طیاروں کے حوالہ سے طے پانے والے سودے کے خلاف ایک شکایت درج کرائی گئی ہے۔ اس حوالہ سے فرانس کے سب سے بڑے اور با وقار روزنامہ ’لی مونڈ‘ کی ویب سائٹ پر رپورٹ شائع کی گئی ہے۔

’لی مونڈ‘ کے مطابق فرانسیسی غیر سرکاری تنطیم (این جی او) ’ایسو شیرپا‘ نے عدالت سے رجوع کیا ہے۔ یہ این جی او اقتصادی جرائم کے خلاف تحریک چلانے کے لئے جانی جاتی ہے۔

شکایت میں ملزم کو ’ایکس‘ کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے۔ ایک وکیل نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ’’یہ اب جج اور جانچ کرنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ’ایکس‘ کی شناخت کریں۔ فرانس، دسلاٹ اور ہندوستان میں سے کوئی بھی مشکوک ہو سکتا ہے۔‘‘


’ایکس‘ کے خلاف اس شکایت میں بدعنوانی، خرید کو براہ راست یا بالواسطہ طور پر اثر انداز کرنا، بدعنوانی کو چھپانا، جانبداری اور فعال منی لانڈرنگ کے الزامات شامل ہیں۔ فرانس کے اخبار لی مونڈ نے لکھا ہے ’’دو بار ناکام کوششوں کے بعد نیشنل فنانشیل پروسیکیوٹر کے دفتر (پی این ایف) میں پہلی شکایت کی گئی لیکن 26 اکتوبر سال 2018 کو معاملہ بغیر کارروائی کے بند کر دیا گیا۔ دوسری شکایت 21 مئی 2019 کو کی گئی، اس پر بھی کوئی کوئی غور نہیں کیا گیا۔ اب بدعنوانی مخالف تنظیم کی جانب سے ایک بار پھر شکایت درج کرائی گئی ہے تاکہ عدالتی جانچ شروع ہو سکے۔ شکایت کا مقصد ان شرائط کو منظر عام پر لانا ہے جن کے تحت فرانس کی طیارہ ساز کمپنی اور نریندر مودی کی حکومت کے درمیاں 7.9 بلین یورو کا فوجی معاہدہ طے ہوا تھا۔ شکایت کا سب سے اہم مقصد اس پہلو سے بھی پردہ اٹھانا ہے کہ اس سودے سے ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کے دوست اور ایک طاقتور صنعت کار انل امبانی کو کیا فائدہ پہنچا۔‘‘

خیال رہے کہ شیرپاتنطیم کی شکایت فرانس کی تفتیشی میڈیا ادارے ’میڈیا پارٹ‘ کی جانب سے اپریل کے شروع میں شائع ہونے والی اس رپورٹ پر مبنی ہے جس میں ایک ہندوستانی ثالث کو رشوت دینے کا انکشاف کیا گیا تھا۔ فرانسیسی قوانین کے مطابق ’شیرپا‘ جیسی تنظیموں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ بدعنوانی کے معاملہ میں عدالت سے رجوع کر سکتی ہیں۔


لی مونڈ اخبار نے لکھا ہے کہ اس نے سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ حکومت کے ذریعہ 126 رافیل جنگی طیاروں کی خریداری کے لئے فرانس کی کمپنی دسلاٹ کو ٹندر دیا تھا، جس میں ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ(ایچ اے ایل) کو اس کا شراکت دار بنایا گیا تھا۔ اس ٹندر کو اس نے ’صدی کا سودا‘ کہا تھا۔ اس نے لکھا کہ ہندوستانی وزیر اعظم (نریندر مودی) نے ایچ اے ایل کی جگہ انل امبانی کو سودے میں مسلط کر دیا اور اس پر سب کو حیرانی ہوئی تھی، یہاں تک کہ ہندوستانی وزارت دفاع کو بھی۔ اس نے آگے لکھا کہ اس سے نریندر مودی کے قریبی دوست انل امبانی کو سب سے زیادہ فائدہ ہوا تھا جن کے ساتھ کچھ اور ہندوستانی کمپنیوں کو بھی قریب 4 بلین یورو کے آفسیٹ کنٹریکٹ کا فائدہ ہوا۔

پی این ایف اور فرانس کی اینٹی کرپشن ایجنسی (اے ایف اے) نے شیرپا کے الزامات کو ریاست کے مفادات کا حوالہ دیتے ہوئے دبا دیا تھا۔ جون 2019 میں پی این ایف کی سربراہ الیانا ہولیٹ نے ڈپٹی پروسیکیوٹر کے مشورہ کے خلاف اس کیس میں مزید کارروائی کرنے سے انکار کر دیا۔ لی مونڈ کی رپورٹ میں شیرپا کے وکلاء ولیم برندو اور ونسنٹ بریگارتھ نے کہا ’’یہ ایک غیر معمولی بدعنوانی کا معاملہ ہے کیونکہ اس میں سچ کو چھپانے کے لئے، جو لوگ شامل ہوئے، جو کچھ داؤ پر لگا ہے اور جن طریقوں کو اپنایا گیا ہے وہ غیر معمولی ہے۔‘‘


وکلا نے مزید کہا’’ دو چیزیں تو ثابت ہو چکی ہیں ایک بدعنوانی اور دوسرا کیسے انسداد بدعنوانی ایجنسی نے خود پر سنسرشپ لگا لی۔ اب جس طرح سے اے ایف اے کے سربراہ نے عزم ظاہر کیا ہے اس سے لگتا ہے کہ اس سودے میں سیاسی دخل اندازی ہوئی تھی۔ اب جانچ میں یہ بات سامنے آئے گی کی کس طرح انصاف کو روکنے کے لئے رخنہ اندازی کی۔‘‘

خیال رہے کہ میڈیا پارٹ کے انکشاف کے بعد دسالٹ ایویشن نے کہا تھا کہ رافیل سودا میں پوری شفافیت کے ساتھ شراکت داروں کے مابین قرار پایا تھا۔ اس میں حکومتیں اور کمپنیاں دونوں ہی شامل ہیں لیکن دسالٹ ایویشن نے سودے میں وزیر اعظم نریندر مودی کے کرادر سے انکار نہیں کیا تھا اور اب اس کی جانچ فرانس کی عدالت کرے گی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔