رافیل معاملہ میں نیا انکشاف، وزارت دفاع میں مفادات کا ٹکراؤ!

رافیل جنگی طیارہ خرید معاملہ میں مدھولیکا سُکُل اور ان کے شوہر پرشانت سُکُل کے عہدوں سے مفادات کے ٹکراؤ کی بات ہو رہی ہے اور اس ٹکراؤ کے امکان کی وجہ ہے شانتانو سُکُل کا ریلائنس سے رشتہ۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

رافیل جنگی طیارہ معاملہ میں ایک نیا انکشاف ہوا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ وزارت دفاع کے دو سینئر افسران کا ریلائنس کی ڈیفنس کمپنیوں کے کنسلٹنٹ/ملازم سے خاندانی رشتہ ہے، جس سے رافیل معاہدہ کے آفسیٹ کانٹریکٹ کے معاملے میں مفادات کے ٹکراؤ کا امکان پیدا ہوتا ہے۔ یہ انکشاف ’دی کوئنٹ‘ اور ’بروٹ انڈیا‘ کی تحقیقاتی رپورٹ میں ہوا ہے۔

رپورٹ کے مطابق 9 جون 2016 کو پرشانت نارائن سُکُل کو ڈیفنس اکاؤنٹ کا ایڈیشنل کنٹرولر جنرل مقرر کیا گیا۔ یہ عہدہ دفاعی معاہدوں کے پیمنٹ اور آڈیٹنگ کی ذمہ داری سے منسلک تھا۔ اس کے بعد یکم فروری 2018 کو پرشانت سُکُل کی بیوی مدھولیکا سُکُل کو کنٹرولر جنرل آف ڈیفنس اکاؤنٹ (سی جی ڈی اے) بنایا گیا۔ شوہر-بیوی دونوں 1982 سے انڈین ڈیفنس اکاؤنٹ سروس میں کام کرتے آ رہے ہیں۔ اس کے بعد 31 اگست 2018 کو فنانشیل ایڈوائزر (ڈیفنس سروسز) کے طور پر مدھولیکا سُکُل کی تقرری ہوئی۔

دوسری طرف ’دی کوئنٹ‘ کی رپورٹ مزید کہتی ہے کہ پرشانت سُکُل کے چھوٹے بھائی شانتانو سُکُل نیوی سے سبکدوش ہو کر ڈیفنس سیکٹر میں لابیسٹ کا کام کر رہے تھے اور سال 2015 میں انل امبانی کے ریلائنس ڈیفنس گروپ سے جڑے۔ ’دی کوئنٹ‘ کے مطابق مدھولیکا سُکُل اور ان کے شوہر پرشانت سُکُل کے عہدوں سے مفادات کے ٹکراؤ کے امکان کی وجہ ہے شانتانو سُکُل کا ریلائنس سے رشتہ۔ شانتانو کے لنکڈ اِن پروفائل کے مطابق، وہ اسی کمپنی کے کنسلٹنٹ تھے جس کا نام اب بدل کر ریلائنس نیول اینڈ انجینئرنگ لمیٹڈ ہو چکا ہے۔ ان کے لنکڈ اِن پروفائل کا ایک پرانا ورژن بتاتا ہے کہ وہ ریلائنس ڈیفنس لمیٹڈ میں ڈی جی ایم رہے ہیں۔ دلچسپ بات ہے کہ شانتانو سُکُل نے اپنے لنکڈ اِن پروفائل سے ریلائنس ڈیفنس لمیٹڈ میں اپنے عہدہ کو لے کر سارے ریفرنس ہٹا دیے۔

’دی کوئنٹ‘ کا کہنا ہے کہ سرسری طور پر دیکھیں تو مدھولیکا اور پرشانت حکومت میں بڑے عہدوں پر ہیں اور شانتانو سُکُل ایک ایسی کمپنی/گروپ میں کام کر رہے ہیں جو سرکاری کانٹریکٹ لینے کی کوشش کر رہی تھی، یعنی مفادات کا ٹکراؤ ممکن ہے۔

اس دلیل کو سنٹرل سول سروس قانون 1964 کے سیکشن 4(2)(ii) سے طاقت ملتی ہے جس کے مطابق جب بھی کسی بیوروکریٹ کی فیملی کا کوئی رکن کسی کمپنی یا فرم میں ملازمت شروع کرتا ہے تو اسے اس کی جانکاری حکومت کو دینی ہوتی ہے۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ بیوروکریٹ کس محکمے میں کام کرتا ہے اور ان کے رشتہ دار کی کمپنی حکومت کے کس محکمے سے معاہدہ کر رہی ہے۔

اس طرح سے پرشانت اور مدھولیکا کو شانتانو سُکُل کے ریلائنس جوائن کرنے پر حکومت کو اس کی جانکاری دینی چاہیے تھی۔ ساتھ ہی ان کمپنیوں کی جانکاری بھی دینی چاہیے تھی جن سے شانتانو پہلے جڑے رہے ہیں۔ اس دوران پرشانت اور مدھولیکا کن عہدوں پر کام کر رہے ہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

اس رپورٹ کے سلسلے میں ’دی کوئنٹ‘ نے پرشانت سُکُل، مدھولیکا سُکُل، شانتانو سُکُل نے اشارہ کیا ہے کہ انھوں نے اتنے سالوں میں شانتانو کی ملازمت کے بارے میں حکومت کو کچھ نہیں بتایا۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے اور مدھولیکا کے اتنے سال کے کیریر میں شانتانو کے کام سے ان کا کوئی سروکار نہیں رہا ہے۔ لہٰذا مفادات کے ٹکراؤ کے انکشاف کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔

خاص بات یہ ہے کہ انھوں نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ فروری 2018 تک مدھولیکا کے لیے شانتانو کے بارے میں کسی انکشاف کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ تب تک ان کے کام کا رافیل یا ریلائنس سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔

’دی کوئنٹ‘ نے اپنی جانچ میں پایا کہ سی جی ڈی اے کا رافیل معاہدہ سے رشتہ ہے۔ خاص طور سے معاہدہ کے تحت آفسیٹ شرائط کے ضمن میں۔ سپریم کورٹ کو دیے اپنے جواب میں حکومت نے خود اسے منظور کیا ہے۔ حالانکہ ’دی کوئنٹ‘ نے کہا ہے کہ اس جانکاری کا انکشاف کرنے کا مقصد یہ بتانا نہیں ہے کہ پرشانت سُکُل یا مدھولیکا سُکُل نے کسی غلط کام کو انجام دیا ہے۔ اور نہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اگر اپنے عہدہ پر بنے رہے تو اگلے سال آفسیٹ کانٹریکٹ شروع ہوں گے تو آڈٹ رپورٹ میں کوئی گھال میل ہوگا۔

لیکن ’دی کوئنٹ‘ نے کچھ مسئلوں پر صفائی کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ مدھولیکا اور پرشانت کی ’سی جی ڈی اے‘ میں تقرری سے پہلے ہی انھیں پتہ تھا کہ شانتانو کا ریلائنس سے رشتہ ہے۔ شاید پرشانت اور مدھولیکا کو اس بات کی جانکاری حکومت کو دے دینی چاہیے تھی۔ ہمارے بیوروکریٹس کے لیے اس طرح کے قوانین میں وضاحت کیوں نہیں ہے؟

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 23 Nov 2018, 7:09 PM