’رافیل معاہدہ آزاد ہندوستان کا سب سے بڑا ڈیفنس گھوٹالہ‘

سابق مرکزی وزیر یشونت سنہا، ارون شوری اور پرشانت بھوشن کا بھی یہی ماننا ہے کہ رافیل معاہدہ آزاد ہندوستان کا سب سے بڑا دفاعی سودا گھوٹالہ ہے اور اس کے ذریعہ ملک کی سیکورٹی کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا۔

تصویر وشودیپک
تصویر وشودیپک
user

وشو دیپک

رافیل معاہدہ سے متعلق بی جے پی کے سینئر لیڈر اور سابق مرکزی وزیر یشونت سنہا اور ارون شوری کے ساتھ سپریم کورٹ کے وکیل پرشانت بھوشن نے بھی مودی حکومت پر سنگین الزامات عائد کر دیے ہیں۔ دہلی کے پریس کلب میں ہوئی ایک پریس کانفرنس میں ارون شوری نے کہا کہ رافیل معاہدہ آزاد ہندوستان کا سب سے بڑا ڈیفنس گھوٹالہ ہے اور اس میں ایک نہیں کئی خامیاں ہیں۔ انھوں نے کہا کہ مرکزی وزیر دفاع نے لوک سبھا میں کہا تھا کہ انل امبانی کی کمپنی کو رافیل طیارہ بنانے کا حکم کیوں اور کیسے ملا، اس کی جانکاری نہیں دے سکتیں، کیونکہ وہ فرانس حکومت کے ساتھ ہوئے خفیہ معاہدہ سے بندھی ہوئی ہیں۔ ارون شوری نے کہا کہ وزیر دفاع نے لوک سبھا میں سب سے بڑا جھوٹ بولا۔ انھوں نے بتایا کہ ہندوستان اور فرانس کے درمیان ہوئے خفیہ معاہدہ میں صاف لکھا ہے کہ صرف طیارہ کی تکنیکی چیزوں سے جڑی جانکاریوں کے لیے ہی یہ معاہدہ اثرانداز ہوگا۔ انھوں نے سوال پوچھا کہ وزیر دفاع بتائیں کہ انل امبانی کی کمپنی کو کانٹریکٹ کیوں دیا گیا کیونکہ یہ معاہدہ اس کا جواب دینے سے نہیں روکتا ہے۔

شوری نے کہا کہ حکومت کی گائیڈ لائن کہتی ہے کہ ہر آف سیٹ کانٹریکٹ چاہے وہ جس بھی قیمت کا ہو، وزیر دفاع کی منظوری سے ہوگا۔ حکومت جھوٹ بول رہی ہے کہ ریلائنس کو کانٹریکٹ ڈیسالٹ نے دیا۔ قیمت کا انکشاف نہ کرنے کی دلیل بھی بے کار ہے۔ حکومت کے ریاستی وزیر مملکت برائے دفاع خود لوک سبھا میں قیمت ظاہر کر چکے ہیں اور وہ ہے 670 کروڑ فی طیارہ، اس میں سب کچھ شامل ہے۔ اس قیمت میں اسلحہ سے لے کر ٹیکنالوجی ٹرانسفر تک شامل ہے۔

پریس کانفرنس میں موجود سپریم کورٹ کے سینئر وکیل پرشانت بھوشن نے کہا کہ مودی حکومت نے رافیل معاہدہ میں ملک کی سیکورٹی کے ساتھ سنگین کھلواڑ کیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ یو پی اے حکومت کے وقت 36 طیاروں کی خرید کی بات ہو رہی تھی، لیکن مودی حکومت نے اچانک 126 طیاروں کی خرید کے لیے معاہدہ کر لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہندوستانی فضائیہ کے کسی بھی افسر نے 126 رافیل طیارہ کی ضرورت نہیں ظاہر کی تھی۔

پرشانت بھوشن نے کہا کہ اس معاہدے سے ملک کو 35000 کروڑ کا خسارہ ہوا ہے۔ معاہدہ میں طیارہ کی تعداد گھٹائے جانے سے ملک کی سیکورٹی کو خطرہ بڑھا ہے۔ تعداد 126 سے 36 کیے جانے کی جانکاری نہ تو وزیر دفاع کو تھی نہ فضائیہ میں کسی کو۔ حکومت رازداری ضابطوں کا بہانہ کر کے سب کچھ چھپانا چاہ رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ پی ایم مودی نے خود ہی یہ فیصلہ لیا۔ آفسیٹ کانٹریکٹ کی گائیڈ لائن بھی اسی حکومت کی بنائی ہوئی ہیں۔

پرشانت بھوشن نے کہا کہ ملک کو سیکورٹی کے لیے سات اسکواڈرن کی ضرورت ہے تبھی 126 طیاروں کی بات ہوئی تھی۔ لیکن مودی حکومت نے اس حقیقت کو جانتے ہوئے بھی یہ تعداد 36 کر دی، وہ بھی بغیر کسی کی جانکاری کے۔ یہ قومی سیکورٹی سے کھلواڑ ہے۔ انھوں نے کہا کہ سیکورٹی معاملوں کی کابینہ کمیٹی کی منظوری کے بغیر وزیر اعظم کو کوئی اختیار نہیں تھا کہ وہ یہ سمجھوتہ کرتے۔ اس ناطے یہ مجرمانہ روش کا معاملہ بنتا ہے۔ یہ جانتے ہوئے ہی حکومت نے اس قانون میں ترمیم کر دیا۔

پرشانت بھوشن نے کہا کہ اس معاہدے میں پہلے سرکاری کمپنی ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ کو رافیل طیارہ بنانے کی تکنیک ملنی تھی لیکن فرانس کے ساتھ رافیل طیارہ معاہدہ سے پانچ مہینے پہلے اچانک وجود میں آئی انل امبانی کی کمپنی کو فرانس کے ساتھ رافیل طیارہ بنانے کا کانٹریکٹ مل گیا۔ انھوں نے کہا کہ انل امبانی کی کمپنی کو معمولی طیارہ بنانے کا بھی کوئی تجربہ نہیں ہے۔ پرشانت بھوشن نے الزام عائد کیا کہ کمپنی بنائی ہی اس لیے گئی تاکہ یہ کانٹریکٹ حاصل ہو سکے۔ انھوں نے بتایا کہ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جس صنعت کار کو اتنی بڑی ذمہ داری دی گئی اس کی پچھلی تاریخ یہی کہتی ہے کہ اس کے زیادہ تر بڑے پروجیکٹس ناکام ثابت ہوئے اور اس کی کمپنی بڑے قرض میں ڈوبی ہوئی ہے۔

پریس کانفرنس میں سابق مرکزی وزیر یشونت سنہا نے کہا کہ خارجہ سکریٹری نے معاہدے سے دو دن پہلے کہا تھا کہ پرانے معاہدہ کو ہی آگے بڑھائیں گے، لیکن وہاں جا کر نیا معاہدہ کر لیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ اس لوک سبھا میں مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کو موقع نہیں ملے گا کیونکہ وقت کم ہے۔ اس لیے اس معاملے کی سی اے جی سے جانچ کرائی جانی چاہیے اور تین مہینے کے اندر معینہ مدت میں جانچ ہو۔ انھوں نے الزام عائد کیا کہ نوٹ بندی کے بعد جو دو ہزار کے نوٹ چھپوائے گئے تھے، اب وہ بازار میں جلدی نظر نہیں آتے۔ دو ہزار کے زیادہ تر نوٹوں کو کالے دھن کی شکل میں جمع کر رکھا گیا ہے اور ضرورت پڑنے پر انھیں خرچ کیا جائے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔