رافیل معاہدہ میں نیا انکشاف، اپنے حلف نامہ سے خود پھنس گئے پی ایم مودی

رافیل معاہدہ پر مودی حکومت نے خود ہی اعتراف کر لیا ہے کہ اس معاہدے کا اعلان پی ایم مودی نے بغیر مناسب طریقہ کا استعمال کیے اور کسی سے مشورہ کے ہی کر دیا تھا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

مرکزی حکومت نے اس بات کا اعتراف کر لیا ہے کہ 36 رافیل جنگی طیارہ خریدنے کا پی ایم مودی نے اعلان اس عمل سے پہلے ہی کر دیا تھا جو کسی بھی دفاعی مشینری کی خرید کے لیے ضروری ہے۔ حکومت نے رافیل معاہدہ پر سپریم کورٹ میں پیر کے روز جو حلف نامہ داخل کیا ہے اس سے یہی پتہ چلتا ہے کہ نہ تو ائیر فورس نے صرف 36 رافیل طیارہ کا مطالبہ کیا تھا اور نہ ہی اس سے اس معاہدہ کے بارے میں کوئی صلاح و مشورہ ہوا تھا۔ تو کیا اس معاہدے کا اعلان کسی اور خاص مقصد سے کیا گیا تھا؟ اور کیا ایسا کر کے کسی خاص پسندیدہ بزنس مین کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی گئی تھی؟

مرکزی حکومت نے جو حلف نامہ داخل کیا ہے اس کے پیراگراف 23 میں حکومت نے کہا ہے کہ ’’36 رافیل طیاروں کی ضرورت کی منظوری کو ڈیفنس ایکوئزیشن کونسل یعنی ڈی اے سی کی میٹنگ میں 13 مئی 2015 کو دی گئی تھی۔ اس میٹنگ کی صدارت وزیر دفاع نے کی تھی۔‘‘ غور طلب ہے کہ کوئی بھی دفاعی مشینری یا ساز و سامان خریدنے کے لیے منظوری یعنی اے او این (ایکسپٹنس آف نیسیسٹی) خریداری کے عمل کا پہلا قدم ہے، جسے ڈی اے سی کی منظوری ضروری ہوتی ہے۔ یہاں یہ بھی دھیان رکھنا ہوگا کہ اے او این کی منظوری کے بغیر کسی بھی دفاعی مشینری یا ساز و سامان کی خرید کا اعلان نہیں کیا جا سکتا ہے۔

رافیل معاہدہ میں نیا انکشاف،  اپنے حلف نامہ سے خود پھنس گئے پی ایم مودی

اسے اس طرح بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ فوج کے تینوں حصے (بری فوج، بحری فوج اور فضائی فوج) اپنی ضرورت کے ساز و سامان کی فہرست تیار کرتے ہیں، لیکن صرف اس فہرست کی بنیاد پر کوئی خریداری نہیں ہوتی ہے جب تک کہ اس کا اے او این نہ ہو جائے، یعنی اس کی منظوری نہ مل جائے۔

لیکن رافیل طیاروں کے معاملے میں وزیر اعظم نریندر مودی نے کسی منظوری سے پہلے ہی 36 رافیل طیاروں کی خرید کا اعلان کر دیا تھا۔ انھوں نے 10 اپریل 2015 کو فرانس کے سابق وزیر فرانسوا اولاند کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کر اس معاہدے کا اعلان کیا تھا۔ اب یہاں سیدھا سوال یہ کھڑا ہوتا ہے کہ آخر پی ایم مودی نے ایسا کیوں کیا؟

اس سوال کا جو جواب ہے اس کے دو حصے ہو سکتے ہیں۔ پہلا تو اس وقت مل گیا تھا جب فرانس کے سابق صدر فرانسوا اولاند نے کہا تھا کہ ھکومت ہند کے کہنے پر سالٹ نے آفسیٹ پارٹنر منتخب کیا تھا۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’’ہمارے پاس کوئی متبادل نہیں تھا، ہمیں جو دیا گیا ہمیں ماننا پڑا۔‘‘

فرانس کی نیوز ویب سائٹ میڈیاپارٹ سے بات چیت میں اولاند نے یہ بھی کہا تھا کہ مودی حکومت نے ریلائنس کو ان پر ایک طرح سے تھوپا تھا۔ اولاند نے مانٹریال میں اے ایف پی سے بات چیت میں بھی اس بات کو دہرایا تھا کہ انل امبانی کو معاہدہ میں شامل کرنا رافیل معاہدہ کے نئے فارمولے کا حصہ تھا اور یہ مودی حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد طے کیا تھا۔

اس سوال کے جواب کا دوسرا حصہ، یعنی پی ایم مودی چاہتے تھے کہ رافیل بنانے والی کمپنی معاہدے میں انل امبانی کو اپنا آفسیٹ پارٹنر بنائے اور انھوں نے 36 طیاروں کے لیے خود پیش قدمی کی۔ لیکن اس میں پیسے کا گھوٹالہ کہاں ہوا؟ تو آپ کو بتا دیں کہ گھوٹالہ ہوا طیاروں کی قیمت میں۔

اس سلسلے میں آپ کو صحافی اور دفاعی ماہر اجے شکلا کے 10 نومبر کو بزنس اسٹینڈرڈ اخبار کے لیے لکھے گئے بلاگ کو دیکھنا ہوگا۔ اس میں انھوں نے لکھا ہے کہ مودی حکومت کو دسالٹ کو 36 رافیل طیاروں کے لیے 7.85 ارب یورو دینا ہے۔ یعنی ایک طیارہ کی قیمت اوسطاً 217 ملین یورو کے قریب ہوگی۔ یہ قیمت اس شروعاتی معاہدے سے 40 فیصد زیادہ ہے جو یو پی اے حکومت دسالٹ کے ساتھ تقریباً طے کر چکی تھی۔ اس معاہدے میں 126 رافیل طیاروں کے لیے 19.5 ارب یورو دیے جانے تھے، یعنی اوسطاً ایک طیارہ کی قیمت تقریباً 155 ملین یورو کے آس پاس ہوتی۔

تو پیسے کا گھوٹالہ یہ ہے کہ مودی حکومت نے طیاروں کے لیے 40 فیصد اضافی ادائیگی کا معاہدہ کیا ہے۔ تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مودی حکومت جو اضافی پیسہ دے رہی ہے، وہ واپس کیسے آ رہا ہے۔ امکان تو یہ ہے کہ دسالٹ نے انل امبانی کی ریلائنس کے ساتھ جو جوائنٹ ونچر بنا کر تقریباً 40 ملین یورو کی سرمایہ کاری کی ہے، یہ وہی پیسہ ہے جو مودی حکومت دسالٹ کو اضافی ادائیگی کر رہی ہے۔ اس سرمایہ کاری کے بعد انل امبانی کی گھاٹے میں چل رہی کمپنی کو 284 کروڑ کا فائدہ ہوتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ آخر اس پورے معاملے کی حقیقت کس طرح سامنے آئے گی؟ اس میں کوئی مشکل نہیں ہے۔ اگر حکومت مشترکہ پارلیمانی کمیٹی یعنی جے پی سی اور سی اے جی سے جانچ کے لیے راضی ہو جائے تو سب کچھ سامنے آ سکتا ہے۔ لیکن ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا ہے۔ ہاں، معاملہ سی بی آئی سے ہوتا ہوا سپریم کورٹ تک ضرور پہنچ گیا ہے۔ ایسے ماحول میں ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ دیر سے ہی سہی لیکن اس معاہدے میں ہوئے گھوٹالے کی پرتیں ایک ایک کر کے ضرور کھلیں گی۔ ویسے جو حلف نامہ حکومت نے خود ہی سپریم کورٹ میں داخل کیا ہے، اس کی بنیاد پر ہی مودی حکومت کے خلاف معاملہ بنتا ہوا نظر آ رہا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 13 Nov 2018, 10:09 PM