رافیل: پارلیمنٹ میں ایچ اے ایل پر غلط بیانی سے اٹھے سوال تو وزیر دفاع دینے لگیں صفائی

رافیل معاہدہ پر پارلیمنٹ میں بحث کے دوران وزیر دفاع نرملا سیتارمن پر سرکاری کمپنی ایچ اے ایل سے متعلق غلط بیانی کے الزامات عائد ہوئے ہیں۔ حالانکہ آج انھوں نے ایک دیگر بیان دے کر اپنی صفائی پیش کی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

رافیل معاہدہ پر پارلیمنٹ میں بحث کے دوران مرکزی وزیر دفاع نرملا سیتارمن پر سرکاری کمپنی ایچ اے ایل سے متعلق پارلیمنٹ میں جھوٹ بولنے کے الزامات لگ رہے ہیں۔ حالانکہ آج انھوں نے ایک دیگر بیان دے کر اپنے پہلے والے بیان کی اصلاح کی کوشش ضرور کی ہے، لیکن وضاحت پیش کرنے تک ان کے بیان پر مودی حکومت کٹہرے میں کھڑی ہو چکی ہے۔ لگاتار رافیل معاہدہ کو لے کر مودی حکومت پر حملہ آور کانگریس صدر راہل گاندھی نے سیتا رمن پر قصداً پارلیمنٹ سے جھوٹ بولنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ وہ وزیر دفاع اور وزیر اعظم کو اس سوال کا ’ہاں‘ یا ’نہیں‘ میں جواب دینے کا چیلنج دیتے ہیں کہ کیا رافیل معاہدے میں آپ کی مداخلت پر بحریہ اور وزارت دفاع کے سینئر افسران نے اعتراض ظاہر کیا تھا؟

دراصل 4 جنوری کو لوک سبھا میں رافیل معاہدہ پر بحث کے دوران وزیر دفاع نرملا سیتا رمن نے دعویٰ کیا تھا کہ سرکاری کمپنی ایچ اے ایل کو مجموعی طور پر ایک لاکھ کروڑ روپے دئیے گئے ہیں جس میں کئی ٹھیکے شامل ہیں۔ سیتارمن کے اسی بیان پر سوال کھڑے ہو گئے جس کے بعد پیر کے روز لوک سبھا کے وقفہ صفر میں ایک بار پھر وزیر دفاع نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ ایچ اے ایل کے ساتھ 2014 سے 2018 کے دوران 26 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کے معاہدے پر دستخط کیے گئے ہیں اور 73 ہزار کروڑ روپے کے معاہدے ابھی پائپ لائن میں ہیں۔ ساتھ ہی سیتارمن نے کہا کہ لوک سبھا میں دئیے گئے ان کے بیان پر اندیشہ کھڑا کرنا غلط اور گمراہ کرنے والی بات ہے۔

پارلیمنٹ میں ایک دیگر بیان دے کر بھلے ہی نرملا سیتارمن نے اپنے پہلے کے بیان کی لیپا پوتی کر لی ہو لیکن ایچ اے ایل سے جڑی باتیں کچھ اور ہی کہانی بیان کرتی ہیں۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق رافیل معاہدہ کے لیے مودی حکومت نے جہاں بغیر ایک بھی طیارہ ملے دیسالٹ ایویشن کو پیشگی 2000 کروڑ روپے کی ادائیگی کی وہیں ایچ اے ایل کو اب تک ڈلیوری کیے جا چکے طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کا بقایہ 15700 کروڑ روپے کی ادائیگی نہیں کی گئی۔ یہ رقم مارچ 2019 تک بڑھ کر 20 ہزار کروڑ روپے ہو جائے گی۔

دوسری سچائی یہ ہے کہ 19-2018 کے دوران ایچ اے ایل کے سالانہ لازمی بجٹ 19334 کروڑ روپے کے مقابلے حکومت نے صرف 6415 کروڑ روپے الاٹ کیے جو کل ضرورت کا صرف 33 فیصد ہے۔ اس کی وجہ سے ایچ اے ایل کو اپنے ملازمین کی تنخواہ کی ادائیگی کرنے کے لیے بینکوں سے 781 کروڑ روپے کا قرض لینا پڑا۔ اتنا ہی نہیں، اس سے پہلے مودی حکومت نے ایچ اے ایل سے 11024 کروڑ روپے واپس لے لیے تھے۔ سال 16-2015 میں وزارت دفاع کے ایک منصوبہ کے تحت ایچ اے ایل کو 6393 کروڑ روپے حکومت کو واپس ٹرانسفر کرنے پڑے۔ اس کے ساتھ ہی ایچ اے ایل کو 4631 کروڑ کے ڈیویڈنڈ اور ٹیکسوں کی بھی ادائیگی کرنی پڑی۔

ان سب جھٹکوں کی وجہ سے ایچ اے ایل کا شیئر 30 فیصد تک گر کر 1184 روپے سے 814 روپے پر آ گیا۔ ان باتوں کو تفصیل سے سمجھنے پر مودی حکومت کے ذریعہ سرکاری کمپنی ایچ اے ایل کو پوری طرح سے بند کرنے کی سازش کا صاف پتہ چلتا ہے۔ کانگریس صدر راہل گاندھی نے انہی سب باتوں کو اٹھایا اور رافیل معاہدہ کو لے کر ایک بار پھر مودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انھوں نے کہا کہ ’’ایچ اے ایل کے پاس تنخواہ دینے تک کے پیسے نہیں ہیں، کیا یہ بات حیران کرنے والی نہیں لگتی ہے؟ اب انل امبانی کے پاس رافیل کا ٹھیکہ ہے۔ اب انھیں اس ٹھیکے کا کام پورا کرنے کے لیے ایچ اے ایل کی شاندار صلاحیتوں کی ضرورت ہے۔ تنخواہ کی کمی کے سبب ایچ اے ایل کے بہترین انجینئرس اور سائنٹسٹ کو انل امبانی کی کمپنی میں کام کرنے کے لیے مجبور ہونا پڑے گا۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */